توسیع کی کوششیں، 'اپنا بندا' لگوانے کی واردات، اور عمران، شہباز دونوں کو بلیک میل کرنے کی سازش کیسے ناکام ہوئی

توسیع کی کوششیں، 'اپنا بندا' لگوانے کی واردات، اور عمران، شہباز دونوں کو بلیک میل کرنے کی سازش کیسے ناکام ہوئی
جنرل عاصم منیر ملک کے نئے آرمی چیف نامزد ہو چکے ہیں۔ ان کی سمری پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ اس لئے ایک عمومی رائے یہی ہے کہ اس حوالے سے تنازعہ ختم ہو گیا ہے۔ تا ہم اب یہ احاطہ کرنا ضروری ہے کہ یہ فیصلہ کیسے ہوا۔ اس کے محرکات کیا تھے۔ کون کیوں نہیں بن سکا اور کون کیوں بن گیا۔

پہلی بات جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع لینا چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ ان کی پوزیشن یہی تھی کہ وہ توسیع نہیں چاہتے۔ لیکن پھر بھی وہ توسیع کی کوشش میں تھے۔ ان کے دو گیم پلان تھے۔ پہلا یہ کہ انہیں آرمی ایکٹ کے تحت جتنی مدت کے لئے توسیع مل سکتی ہے وہ مل جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ اپنی مرضی کا اگلا آرمی چیف لے آئیں۔ اس مقصد کے لئے وہ ایک مربوط حکمت عملی پر کام کر رہے تھے۔

اگر دیکھا جائے تو انہوں نے اس کے لیے ایک ماحول بھی بنا لیا تھا۔ ملک کی بڑی اپوزیشن جماعت اور اس کے لیڈر عمران خان کو بھی ان کی توسیع پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لئے اگر حکومت انہیں توسیع دینے کی بات کرتی تو عمران خان قبول کر لیتے۔ اس طرح ان کی توسیع پر ایک قومی اتفاق رائے کا ماحول موجود تھا۔ اسی قومی اتفاق رائے کی کوشش میں انہوں نے عمران خان کے ساتھ کافی نرم رویہ رکھا جس کی وجہ عمران خان کا لاڈلے کا تاثر بن گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایسا پہلی بار نہیں کر رہے تھے۔ اپنی پہلی توسیع کے موقع پر بھی وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلے تھے۔ اسی لئے انہوں نے آرمی ایکٹ پر سب سے ووٹ لے لئے تھے۔ اس بار بھی وہ اسی گیم پلان پر کام کر رہے تھے۔



یہ بھی پڑھیے: سینیئر سیاستدان نے کہا ‘بات کر کے مُکر جانے والا پہلا ڈی جی آئی ایس آئی دیکھا ہے’







میں سمجھتا ہوں کہ حکمران اتحاد کے ہاتھ سے پنجاب حکومت کا جانا جنرل قمر جاوید باجوہ کے گھر جانے کی بڑی وجہ بن گیا۔ سونے پر سہاگہ چودھری پرویز الہیٰ نجی محفلوں میں کہتے رہے کہ وہ جنرل باجوہ کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ گئے۔ اس لئے کہیں نہ کہیں حکمران اتحاد میں پنجاب جانے کا غصہ تھا۔ جو ان کو گھر بھیج کر نکالا گیا ہے۔جنرل باجوہ یہ سوچتے رہے کہ پنجاب کی صورت میں ان کے ہاتھ میں ایک کارڈ ہے۔جب بھی پنجاب کی بات ہوئی جنرل باجوہ کہتے توسیع کے بعد میں مضبوط ہو جاؤں گا پھر پنجاب کو کر لیں گے۔ جبکہ حکمران اتحاد اسے پہلے چاہتا تھا۔ بس یہیں بات بگڑ گئی۔ پھر حکمران اتحاد نے اس کارڈ سے بلیک میل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اعتماد ٹوٹ گیا تھا۔

اب سوال یہ ہے ساحر شمشاد کو چیف کیوں نہیں بنایا گیا۔ ساحر شمشاد کے خلاف سب سے بڑی بات ہی یہ تھی کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے امیدوار تھے۔ جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ اگر انہیں توسیع نہیں دی جا رہی تو ساحر شمشاد کو آرمی چیف بنا دیا جائے۔ لیکن حکمران اتحاد کی سوچ یہی تھی کہ جب انہیں توسیع نہیں دی جا رہی تو ان کے نمائندے کو کیوں بنایا جائے۔ اگر نمائندے کو ہی بنانا ہے تو توسیع ہی کیوں نہ دی جائے۔ اگر جنرل باجوہ میں اپنی بات منوانے کی طاقت ہوتی تو پھر وہ خود ہی توسیع لے لیتے۔ نمائندے کو بنوانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس لئے جہاں جنرل باجوہ کی بات بگڑی وہاں ان کے نمائندنے کی بات بھی بگڑ گئی۔ کہیں نہ کہیں جنرل باجوہ اور حکمران اتحاد کے درمیان ٹائمنگ میں حکومت جیت گئی۔ معاملات کو طویل کرنے میں باجوہ ہارتے گئے اور حکمران اتحاد جیتتا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کورونا باجوہ کے لئے گھر بھیجنے میں اہم ثابت ہوا ہے۔

جنرل باجوہ کے بعد کس کو چیف بنایا جائے۔ اب سوال یہ تھا کہ اس کو چیف بنایا جائے جو باجوہ کا بھی امیدوار نہیں اور عمران خان کا بھی حمایتی نہیں۔ اس لئے جنرل فیض کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ ان کا نام لسٹ میں تھا لیکن حکمران اتحاد کی لسٹ میں نہیں تھا۔ وہ آخری چوائس بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے جہاں ساحر شمشاد اس لئے قبول نہیں تھے کہ وہ جنرل باجوہ کے امیدوار ہیں، وہاں جنرل فیض بھی قبول نہیں تھے کہ وہ عمران خان کے حامی ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ جنرل فیض نے حکمران اتحاد سے اپنے لئے لابنگ نہیں کی۔ وہ تو عدم اعتماد سے پہلے بھی لندن رابطے میں تھے کہ ان کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ لیکن ان کے ساتھ ملک کی سیاسی جماعتوں کا اعتماد کا رشتہ 2018 میں ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اب ان پر کوئی اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ عدم اعتماد عمران خان نہیں جنرل فیض کے خلاف تھی۔ وہ جنرل فیض کا راستہ روکنے کے لئے تھی۔ اور ان کا راستہ تب ہی رک گیا تھا۔ جنرل باجوہ کی توسیع کے لئے عمران خان کی رضامندی بھی جنرل فیض کے لئے راستہ کھولنے کی کوشش تھی۔ انہیں گیم میں رکھنے کا فارمولہ تھا۔ قبل از وقت انتخابات کا طوفان بھی جنرل فیض کو چیف بنانے کے لئے ہی تھا۔ عمران خان نے چیف کی تعیناتی سے قبل ملک میں عام انتخابات کے لئے زمین آسمان ایک کر دیا۔ پھر مارچ میں انتخابات کے لئے رضامندی بھی اسی لئے تھی کہ جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ اپریل میں ہے۔ لیکن عمران خان ملک کو شدید عدم استحکام کا شکار کرنے کے باوجود بھی یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی ناکامی بن گئی۔

حکمران اتحاد کو ایسے امیدوار کی تلاش تھی جو عمران خان کا حامی نہ ہو اور جنرل باجوہ کا امیدوار بھی نہ ہو۔ اظہر عباس بھی ایک اچھے امیدوار تھے۔ لیکن وہ باجوہ کا پلان بی تھا۔ باجوہ صاحب کی قربت اور پھر کوئی خاص جنرل فیض کے مخالف نہیں تھے۔ انہیں نیوٹرل سمجھا جاتا تھا۔ جو وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے تھے۔ ان کے بیک وقت جنرل فیض سے بھی اچھے تعلقات تھے اور ان کے مخالفین سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ ان کی یہی عادت ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ ویسے بھی ایک عمومی رائے یہی ہے کہ جنرل عامر اور جنرل نعمان ساری سروس میں ایک طرف رہے جبکہ جنرل فیض اور ساحر شمشاد ایک طرف رہے۔ جبکہ اظہر عباس دونوں طرف رہے۔ یہاں یہ بھی اہم ہے کہ یہ چاروں کورس میٹ ہیں۔ اس لئے یہ سب کوئی راز کی بات نہیں۔

جنرل نعمان اور جنرل فیض آئی ایس آئی میں بھی اکٹھے رہے۔ لیکن تب وہاں جنرل فیض کا طوطی بولتا تھا۔ دونوں کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ دونوں کے آج بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ اس لئے جنرل نعمان ایک چوائس ضرور تھے۔ لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ جنرل عامر پر زرداری صاحب کی چوائس کا ٹھپہ لگ گیا۔ ان کا زرداری صاحب سے تعلق ہی ان کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ (ن) لیگ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس لئے جنرل عامر کا کوئی چانس نہیں تھا۔ شاید زرداری صاحب کو اس کا اندازہ تھا۔ وہ انہیں چیئرمین جوائنٹ چیف بنوانا چاہتے تھے۔ ان کا فارمولہ تھا کہ جنرل عامر کے بننے سے باقی سب فارغ ہو جائیں گے۔ خود بخود ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کا فارمولہ تھا چیف (ن) لیگ لگوا لے۔ چیئرمین جوائنٹ چیف میرا بنا دیں۔ (ن) لیگ اس پر تیار تھی۔ لیکن پھر سمری رکتی گئی۔ باجوہ صاحب نے بھی کھیل کھیلنا شروع کر دیا اور سمری کے چکر میں ساحر شمشاد کا نام آ گیا۔ جنرل باجوہ نے بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق جب اپنا آرمی چیف نہ بنتا دیکھا تو چیئرمین جوائنٹ چیف پر مان گئے۔

جنرل عاصم منیر کی واحد مثبت بات عمران خان کی جانب سے انہیں ڈی جی آئی ایس آئی سے ہٹانا تھا۔ عمران خان ان کے کھلم کھلا مخالف تھے۔ عمران خان آخری وقت تک ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ کھیلنے کی بات بھی ان کا راستہ روکنے کے لئے ہی کرتے رہے۔ جو شخص عمران خان کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی قبول نہیں تھا۔ وہ بطور آرمی چیف کیسے قبول ہو سکتا ہے۔ جس کو اتوار والے دن ڈی جی آئی ایس آئی سے ہٹوایا تھا وہ چیف بن گیا۔ اس لیے وہ بہترین چوائس تھے۔ اسی لئے قرعہ فال ان کے نام نکلا۔ باقی سب کہانی ہے۔ ان کا سینیئر ترین ہونا بے معنی ہے۔ اگر وہ سینیئر ترین نہ بھی ہوتے تو آج کے لئے بہترین چوائس تھے۔ عمران خان کا انہیں نکالنا ہی ان کی سب سے بڑی خوبی بن گئی تھی۔ قدرت کا یہی کمال تھا۔