ملا منافق، سلیکٹڈ وزیر اعظم اور صحافتی مگرمچھوں کی محفل برائے تذلیل خواتین

ملا منافق، سلیکٹڈ وزیر اعظم اور صحافتی مگرمچھوں کی محفل برائے تذلیل خواتین
عنوان  پڑھتے ہی آپ کے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے تو یقین جانیے میرے سواد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ سوچنے سے قبل کہ  ہائے اللہ مولانا طارق جمیل کو میں نے ملا منافق کہہ دیا، ہاں بھائی ایک بار نہیں دس بار کہہ دیا۔ مجھے موصوف کو کلوز اپ مڈ شاٹ اور لانگ شاٹ ہر طرح سے ملنے انکے قریب  بیٹھنے اور انکا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔ بہر حال رہ گئے وزیر اعظم عمران خان اور انکا سلیکٹڈ ہونا۔ یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس پر بحث وقت کا زیاں ہے۔ رہ گئے مگر مچھ اینکرز ان کے بارے میں تو 90 فیصد عوام ان سے ملے اور  انہیں جانے بغیر ہی انہیں ملعون اور ملکی جملہ بیماریوں کا منبہ و ماخذ گردانتی ہے۔ میں چونکہ صحافت سے وابستہ ہوں اور میری طرح دیگر کارکن صحافی بھی اس حقیقت کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں، سو اس دعوے پر بھی مجھے کہیں سے سند درکار نہ ہے۔

مختصر بیان کروں تو احساس ٹیلی تھون کے شرکا اپنے اپنے شعبے کی وہ گدھیں ہیں جو گمراہوں، غریبوں اور بے آسراوں کے نام پر اپنی مذہبی منافقت، سیاسی نوسربازی اور صحافتی دلالی کو نہ صرف ملک کے لئے لازم قرار دیتے ہیں بلکہ ان پر سوال اٹھانے والا مجرم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ان تینوں پر کوئی سوال اٹھا کر دکھائیں۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی بلواسطہ کرپشن پر بات کیجیئے، سلیکٹڈ وزیر اعظم کی گالم گلوچ برگیڈ کھڑی ہو جائے گی۔ ملا منافق کو ہلا کر دیکھیے حزب منافقون آپ کی تکہ بوٹی ایک کر دے گی۔ صحافتی مگرمچھ اینکروں کو انگلی چبھویئے ایسا واویلا ہوگا کہ جیسے یہ انگلی واپس نہ کی تو اگلے 24 گھنٹے میں پاکستان گرنے والا ہے۔ سو اس پر اطمینان رکھئے کہ اپنے شعبہ جات کی ان گدھوں میں کوئی دوجے سے کم گھناونا اور غلیظ نہیں۔
لیکن گدھوں کی اس محفل نے اگر کسی کو نقصان دیا تو وہ ہیں اس ملک کی خواتین۔ ہم سب کی مائیں بہنیں بیویاں بیٹیاں، دوست ، گرل فرینڈز اور دیگر رشتوں اور بغیر رشتوں کے جانے جانے والی الغرض خواتین۔ انکو نقصان نہ صرف پہنچا ہے بلکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ملا منافق نے کرونا کی وبا کا ذمہ دار عورتوں کو ٹہرا دیا۔ اور کرے بھی کیا ؟ اسکی روزی کو یہی موافق ہے۔ کہا کہ عورتوں کی مختصر لباسی اور بے حیائی سے اللہ ناراض ہوا اور وبا بھیج دی۔

محفل ختم ہونے کے بعد اسکے بعد پدر شاہی معاشرے کے سیاسی شتونگڑوں نے میدان سنبھالا اور تحریک انصاف کے جلسوں سے ناچتی ہوئی محترم خواتین ورکرز کے وہ وہ شاٹس نکال کر سیاسی مخالفین کی جانب بمباری شروع کی کہ کیا بیاں کروں۔ جواب میں یوتھیا برگیڈ نے بھی محترمہ مریم نواز سے لے کر لیگی خواتین کی تصاویر ان پر اپنے معذور فکری غلاطت  کے مطابق ان پر مغلظات پوچ کر شئیر کیں۔

دوسری جانب مولانا کو سچا ثابت کرنے واسطے سوشل میڈیا کو خواتین کی اس پدر شاہی معاشرے کے نیچ معیارات کے مطابق  نازیبا تصاویر سے بھر دیا گیا۔ تو یوں چونگے میں چند ارب جمع کرنے کی اس ملکی گدھوں کی محفل نے کرونا کا الزام انکے عمال کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے خواتین پر عائد کیا جس کے بعد ہونے والی صف بندی میں انہیں جلسے میں جانے اور وہاں اپنی خوشی کا اظہار کرنے پر بطور شرمناک مثال پیش کیا گیا۔

ایک خاتون سیاسی رہنما کو آج سے دہائیاں قبل پسند کی شادی کرنے پر لعن طعن کی گئی اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے معاملے سے مکمل طور پر غیر متعلقہ خواتین کی تصاویر بطور نشان شرمندگی پھیلا دی گئیں۔ اب ایسے میں کہ جب ملا منافق نے مگر مچھ اینکروں سے معافی مانگ لی ہے اور معاملات سیٹل ہو چکے ہیں۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم نا اہلی کے نئے منارے پر چڑھنے کے لئے راستہ ڈھونڈ رہا ہے  تو خواتین سے تا حال کسی نے معذرت کی ہے اور نہ ہی کسی پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر یہ لوگ پوچھتے ہیں ۔۔۔۔ عورت مارچ کی ضرورت ہی کیا ہے. ہاں باقی رہ گئے عوام ؟ تو انکے لئے  اتنے فینسی دربار سجانے  اور مہنگے درباریوں کی تین گھنٹے جھوم جھوم کر پرفارمنس کے بعد چونگے میں 55 کروڑ روپے  اکھٹے ہوئے جو اگر 22 کروڑ افراد پر تقسیم کئے جائیں تو 2.5 روپے بھی نہیں بنتے۔