انصار عباسی صاحب نے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ قومی کمیشن برائے اقلیت نے عدالتِ عظمیٰ کے قائم کردہ یک رکنی کمیشن کی نئے تعلیمی نصاب سے متعلق رپورٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ دراصل یک رکنی کمیشن نے اس بات کی سفارش کی ہے کہ نصاب میں اردو، انگریزی اور معلوماتِ عامہ کے مضامین میں شامل اسلامی مواد کواسلامیات کے مضمون میں شامل کیا جائے۔مضمون نگار کے مطابق وزارتِ مذہبی امورکی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں قومی کمیشن برائے اقلیت کے سربراہ چیلارام کیو لانی نے کہا کہ ان کا کمیشن اس رپورٹ سے بالکل اتفاق نہیں کرتا جویک رکنی کمیشن نے عدالتِ عظمیٰ کو پیش کی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ وزارتِ تعلیم کے ایک اہلکار سے بریفنگ لینے کے بعد قومی کمیشن برائے اقلیت کے تمام ارکان نے (Single National Curriculum SNC)کی توثیق کی اور اسے تاریخی قرار دیاہے۔سوال یہ ہے کہ کمیشن برائے اقلیت نے یک رکنی کمیشن کی رپورٹ میں کس بات پر اختلاف کیا ہے؟نکتہء بحث تو یکساں تعلیمی نصاب اور پھر اس پر آنے والی تشریح کا ہے۔ جو عدالتِ عظمیٰ نے کی ہے لیکن کچھ حلقوں کو اداروں اور محکموں میں یہ تصادم اچھا لگتا ہے۔اسی غرض سے اداروں کی تشکیل میں کچھ ساختی کمزوریاں رکھی جاتی ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کے 19جون2014کو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تاریخ ساز فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے جنوری2019 میں یک رکنی کمیشنکا قیام عمل میں آیا،جس کے سربراہ ڈاکٹرشعیب سڈل ہیں۔اس کمیشن کے SNC کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات ہیں۔ ان کی رائے میں اردو، انگریزی اور معلوماتِ عامہ کے لازمی مضامین میں اسلامی موضوعات شامل کرناآئین کے آرٹیکل22 کی خلاف ورزی ہے۔ اس طریقے سے مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلباء اسلامی مواد پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ تمام اسلامی مواد اسلامیات کے مضمون میں شامل ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ انھیں اقلیتی حقوق کے لئے کام کرنے والے بہت سے کارکنان اور علماء نے یہ بات پہنچائی ہے کہ لازمی مضامین میں اسلامی موضوعات کی تدریس اقلیتی طلباء کو زبردستی اسلامی تعلیمات پڑھانے کے مترادف ہے۔
مندرجہ بالا صورتحال سے اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قومی کمیشن برائے اقلیت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تخفظ کے لئے کتنا موثّرہے۔ کمیشن کے اپنے Terms of Reference کے مطابق بھی اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ انتہائی مایوس کن ہے۔اول بین الامذاہب ہم آہنگی پر ایک قومی پالیسی بنانا۔ کیا یہ پالیسی بن گئی ہے؟ اگررائج ہے تواس کے نتائج جانچنے کا کیا طریقہء کار ہے؟ دوم ایسے قوانین، احکامات اور اعمال کی نشاندہی کرنا جو اقلیتوں کی طرف متعصبانہ ہوں۔ کیا کسی مجاز ادارے کو ایسی کوئی رپورٹ پیش کی گئی ہے؟سوم حکومت کو ایسے اقدامات کی سفارش کرناکہ اقلتیں بھرپور اور موثر طریقے سے قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔کیا اس شمولیت اور شراکت کے حوالے سے کوئی تجزیہ کیا گیا ہے؟چہارم اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی تہواروں میں انکی شمولیت اور تہواروں کے انعقاد کو یقینی بنانا۔یہ کیسے ہوگا؟ ا س بارے میں TORمیں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
پنجم ایسی شکایات کا بغور جائزہ لینا جو کسی اقلیتی برادری کے ارکان کو حکومت سے ہوں اور پھرحکومت کو اس پر مناسب سفارشات دینا۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے کمیشن کے پاس ضروری اختیارات پر بھی TORخاموش ہیں۔ ششم اس بات کو یقینی بنانا کہ گرجاگھر، مزارات، مندر، گوردوارے اور مذہبی اقلیتوں کی دیگر عبادت گاہوں کو محفوظ اور فعال حالت میں رکھنا۔سوال یہ ہے کہ اس تمام کام کو سر انجام دینے کے لئے قومی کمیشن برائے اقلیت کے پاس وسائل کتنے ہیں؟ہفتم مذہبی اقلیتوں کیCommunal properties کی خریدوفروخت اور منتقلی کے لئے NOCsکے معاملات پر غور کرنا۔کیا انسانی حقوق کے ایک قومی ادارے کا یہ کام ہونا چاہیے؟ہشتم کمیشن باہمی اتفاقِ رائے سے اپنے لئے اضافی مقاصد سیٹ کر سکتا ہے۔اگر ضروری ہو تو قانونی اور آئینی ماہرین سے رجوع کر سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون کرے گا اور کس حیثیت سے کرے گا؟
اقلیتوں کے لئے قومی کمیشن 1990سے کسی نہ کسی طرز پر تشکیل دئیے جاتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا نہ تو کوئی واضح مینڈیٹ ہوتا، نہ دائرہ کار اور نہ ہی اصول وضوابط۔نہ دفترہوتااورنہ ہی عملہ۔اسی بنا پر یہ کمیشن پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ سے قاصر نظر آئے۔ ملک میں ان کی کوئی کارکردگی دکھائی نہیں دی۔بہ ایں وجوہ عدالتِ عظمیٰ کے 19جون2014کو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تاریخ ساز فیصلے میں ’قومی (کونسل)کمیشن برائے اقلیتی حقوق‘کے قیام کا حکم صادر کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف کے انتخابی منشور2018میں یہ وعدہ کیا گیاکہ وہ Structural Reformsکے ذریعے قانون سازی کے تحت بااختیار،خودمختاراوربھرپوروسائل کے ساتھ قومیکمیشن برائے اقلیتی حقوق تشکیل دے گی۔پس 5مئی 2020کوموجودہ حکومت کی جانب سے قومی کمیشن برائے اقلیت کا قیام ایک بارپھر عمل میں آیالیکن پُرانے طریقہء کار پر ہی جو کہ ایک مفروضے سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں۔
کمیشن کی تشکیل اورکارکردگی بہتر بنانے کے لئے یہ از حد ضروری ہے کہ ملک میں قائم کئے گئے انسانی حقوق کے دیگراداروں بشمول قومی کمیشن برائے انسانی حقوق،قومی کمیشن برائے وقارِنسواں، قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال کی طرح قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بھی باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے عمل میں لایا جائے۔ مزید برآں ریاستِ پاکستان پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق تشکیل دے۔
اطلاعات کے مطابق شعیب سڈل کمیشن اور قومی کمیشن برائے اقلیت نے مشترکہ طور پر اقلیتوں کے حقوق کے لئے ڈرافٹ بل بھی تیار کیا ہے اور فیڈبیک لینے کے لئے اسے متعلقہ اداروں اور افراد تک پہنچایا ہے۔ حکومت کو یہ بل جلد از جلد پارلیمان میں لانا چاہیے اور حزبِ اختلاف کو اس پر بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔اقلیتوں کے حقوق کے لئے کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہونا چاہیے جو پارلیمان کو براہِ راست جوابدہ ہو نہ کہ کسی وزارت کے تحت ہو۔ اگر عملی اور مشترکہ کام کے لئے اسے کسی وزارت سے منسلک کرنا ضروری ہو تو وہ وزارت ِ انسانی حقوق ہو۔
کمیشن کی موثّر کارکردگی کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس کے ممبران انسانی حقوق کے کام کا تجربہ رکھتے ہوں نیز انسانی حقوق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ پائے گئے ہوں۔ مزید برآں کسی بھی برادری کے مذہبی رہنمایا مذہبی پارٹی یا ادارے کے نمائندہ کوشامل نہ کیا جائے کیونکہ کمیشن کامقصداقلیتوں کو درپیش انسانی حقوق کے مسائل حل کرنا ہے اور انھیں انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بناناہے نہ کہ اقلیتوں کے مذہبی امورومعاملات پر رہنمائی کرنا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کو شامل کرنے سے بھی اجتناب کیا جائے تاکہ کمیشن بغیر کسی سیاسی دباؤ کے آزادانہ کام کر سکے۔ اس کمیشن کا نام قومی کمیشن برائے اقلیت کی بجائے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق ہونا چاہیے تا کہ اس کانام بھی اس کے کام کی عکاسی کرے۔
پاکستان میں ایک آزاد، خودمختار، بااختیار اور باوسائل قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی ضرورت ہے۔جس کی تشکیل ایسی مضبوط بنیادوں پر ہو کہ اداروں کے درمیان تناؤ کی گنجائش نہ ہو۔تاکہ آئینِ پاکستان میں تفویض کردہ تمام حقوق اقلیتی شہریوں کو میسرہوں۔ نیزپاکستان کی جانب سے توثیق کردہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدات میں بیان کئے گئے تمام حقوق کی فراہمی پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے لئے یقینی بنائی جا سکے۔
نبیلہ فیروز انسانی حقوق کی کارکن اور فری لانس اخبار نویس ہیں۔ مصنفہ انگریزی اور اردو اخبارات میں لکھتی ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کا اکاؤنٹ NabilaFBhatti کے نام سے ہے۔ ان سے Nabila_Feroz@hotmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔