اعلیٰ عدلیہ سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لاہور رجسٹری میں چیلنج کردیا گیا۔
مقامی وکیل شاہد رانا کی جانب سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 سے متعلق درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں بنچوں کی تشکیل چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے۔ ازخود نوٹسز میں اپیل کا حق آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ موجودہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
وکیل شاہد رانا نے درخواست میں استدعا کی کہ عدالت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کو کالعدم قرار دے۔
واضح رہے کہ 29 مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے انفرادی حیثیت میں ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظورکیاگیا جبکہ 30مارچ کو سینیٹ کی جانب سے بل منظور کیا گیا جس کے بعد بل صدرمملکت عارف علوی کے پاس منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ صدر مملکت کی جانب سے بل پر آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت شروع کی گئی۔ جس کے بعد انہوں نے بل نظر ثانی کے لیے واپس بھیج دیا۔
بعد ازاں حکومت کی جانب سے بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کروایا گیا اور توثیق کے لیے دوبارہ صدر عارف علوی کے پاس بھیجا گیا تاہم ایک بار پھر صدر نے سپریم کورٹ بل بغیر دستخط کیے واپس بھیجوا دیا۔
بل کی کاپی کے مطابق بینچ کی تشکیل کا فیصلہ 3 ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی جو چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔
منظور شدہ بل میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کیس کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ معاملہ قابل سماعت ہونے پر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔معاملے کی سماعت کے لئے بنچ کم سے کم 3 رکنی ہوگا جب کہ تشکیل کردہ بینچ میں کمیٹی سے بھی ججز کو شامل کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے تین ججز کو حاصل ہو گا۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 روز میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ 14 روز میں اپیل کی سماعت کے لئے لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اپیل کرنے والے فریق کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا اور آئین کی تشریح کے لئے 5 سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں ہوگا۔