بلوچستان کی 'حق دو تحریک' کی جانب سے گوادر بندرگاہ کے سامنے شہید لالا حمید چوک اور گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے پر دھرنے کو 59 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ مظاہرین نے پچھلے تین دن سے گوادر پورٹ کو جانے والی سڑک ایکسپریس وے کو بھی دھرنا دے کر بلاک کیا ہوا ہے۔ ہفتہ 24 دسمبر کو صوبائی حکومت کی جانب سے ایک وفد صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کی سربراہی میں مظاہرین سے مذاکرات کرنے گوادر پہنچا تھا۔ وفد میں مشیر پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ لالا رشید بلوچ، کمشنر مَکران ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ گوادر شامل تھے۔
مذاکرات کے بعد صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ مظاہرین کے مطالبات جائز ہیں لیکن بعض نکات ایسے ہیں جن کے ذمہ دار وفاقی حکومت، حکومتِ سندھ اور ایرانی احکام ہیں جن کے حل کے لیے انھیں مزید وقت درکار ہے۔ وزیر داخلہ نے مذاکرات کو خوشگوار قرار دیا اور کہا کہ اس دوران صوبائی حکومت کی طرف سے ضلعی انتظامیہ مسلسل مذاکرات کر رہی تھی لیکن پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر گوادر آئے ہیں۔
'حق دو تحریک' کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن ماجد جوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مذاکرات سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اُن کے بقول صوبائی حکومت نے اُن کے مطالبات پر عمل درآمد کروانے کے بجائے کمیٹی بنانے کی بات کی ہے جس سے انھیں نہیں لگتا کہ صوبائی حکومت بااختیار ہے یا انھیں سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
ماجد جوہر نے مزید کہا کہ کمیٹی بنانے کا مطلب یہی ہے کہ یہ مطالبات حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید وقت ضائع کیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اُن کا یہ دھرنا پچھلے سال صوبائی حکومت سے کیے گئے مذاکرات پر عمل درآمد نہ ہونے اور وعدہ خلافی کے خلاف دیا جا رہا ہے۔ اسی لیے وہ مزید کسی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں کرسکتے بلکہ انہیں اب ان وعدوں پر عمل درآمد چاہئیے۔
مذاکرات سے قبل دھرنے کے مقام کے اطراف میں بھاری فورسز کو تعینات کیا گیا تھا جس پر بزرگ قوم پرست رہنما اور 'حق دو تحریک' کے سربراہ حسین واڈیلہ نے اپنی تقریر میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے ان اقدامات سے نہیں لگتا کہ وہ مذاکرات کرنے آ رہے ہیں بلکہ وہ خوف کا ماحول پیدا کر کے گن پوائنٹ پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔
مذاکرات کے بعد تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا کہ وہ آج کے ان مذاکرات میں خود احتجاجاً شامل نہیں ہوئے کیونکہ گوادر کے لوگ پچھلے 59 دنوں سے سخت سردی میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، ہزاروں خواتین نے مطالبات کے حق میں ریلی نکالی لیکن صوبائی حکومت ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتی۔ مولانا نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت مکمل طورپر بے اختیار ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ پچھلے سال بھی 32 دنوں کے دھرنے کے بعد صوبائی حکومت سے مذاکرات ہوئے تھے مگر ان پر ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اب وہ بغیر عمل درآمد کے دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
'حق دو تحریک' گوادر کے مطالبات میں بنیادی مسائل کا حل، سمندر میں غیر قانونی ٹرالرنگ کا خاتمہ، لاپتہ افراد کی بازیابی، غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور پاک ایران سرحد پر آزادانہ تجارت وغیرہ شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف آئندہ چند دنوں کے اندر گوادر کے دورے پر آ رہے ہیں اسی لیے صوبائی حکومت کا یہ وفد مذاکرات کے لیے مجبوراً گوادر آیا ہے تاکہ وزیر اعظم کا دورہ خوشگوار ماحول میں ممکن ہو سکے۔ آج کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں اور اس لیے دھرنا اب بھی جاری ہے۔