وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد کا آج سے دوسرا باب شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالا دستی واپس لے کر دیں گے۔ 2018ء میں عوام کا چوری کیا گیا اصل مینڈیٹ عوام کو واپس دلوائیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی اپیل مسترد ہوئی تو آج ہمارے وکلا نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا بھی بائیکاٹ کر دیا تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آر ٹی ایس بٹھا کر جو ملک پر مسلط کئے گئے، ان لوگوں کو پنجاب میں دوبارہ مسلط کیا جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کے ایک خط کے تحت 25 ممبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی، انہیں ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے بھی بحیثیت پارٹی سربراہ ہدایت جاری کی تھیں کہ ان کے 10 ممبران کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت نے کہا کہ ان کی پارٹی عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی۔ چودھری شجاعت کا لکھا گیا خط حرام اور عمران خان کا خط حلال ہے؟ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ اگر چودھری شجاعت کی ہدایت پر 10 ووٹ نہیں گنے گئے تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت نہیں گنے گئے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان لاڈلے کے اسی حیثیت میں لکھے گئے خط کے تحت 25 لوگوں کو ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے اور اسی طرز پر چودھری شجاعت خط لکھے تو وہ قبول نہ ہو، اس لئے فل کورٹ مانگی گئی تھی۔
مریم اورنگزیب کا پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ جب یہ بنچ بنا تو اس وقت سے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا۔ فل کورٹ بن جاتی تو آج کا فیصلہ مختلف ہوتا۔ اپنے ایک شخص کی وجہ سے آج آئین کی تشریح میں فرق کیا جا رہا ہے۔ اپنی مرضی سے آئین کی تشریح کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو پانچ رکنی بنچ نے نکال دیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ملک میں معاشی تباہی اور بے روزگاری پیدا ہوئی۔ ملک میں فساد، اور نفرت کے بیج بوئے گئے۔ آج کے فیصلے سے ملک میں مزید تقسیم اور انتشار پیدا ہوگا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ فیصلے کی تشریح کے لئے فل کورٹ بنایا جانا چاہیے تھا۔ نواز شریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد کا آج سے دوسرا باب شروع ہوا ہے۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی اور عدلیہ کو ان جکڑی ہوئی چیزوں سے نکالنے کی جدوجہد کا آغاز ہو گیا ہے۔