گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے خلاف ایک منظم منفی مہم جاری ہے جو انتہائی قابل تشویش ہے۔ مخصوص عناصر کی جانب سے عورت مارچ کے شرکاء پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور شرکاء کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مخصوص عناصر نے پہلے ایک ویڈیو ایڈیٹ کی اور پھر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ایک پوسٹر کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کا الزام لگایا۔
سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے عناصر اور توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے بجائے آرگنائزرز کے خلاف مقدمے کا اندراج افسوسناک ہے۔ عورت مارچ کے آرگنائزر نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک پلے کارڈ تھا جسے لاہور کی ایک خاتون کی جانب سے لکھا گیا تھا جن کو 9 سال کی عمر میں 50 سالہ قاری کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، واقعے پر خاتون خاموش رہیں لیکن قاری کی آواز ابھی تک آذان کی صورت میں سنائی دیتی ہے۔
جب شرپسند عناصر وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے جھنڈے کو فرانس کا جھنڈا ثابت نا کرسکے اور ویڈیو ایڈیٹ کر کے وائس اوور کرنے کی سازش بھی ناکام ہوگئی تو پلے کارڈ کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ آرگنائزرز کی وضاحت کے بعد مقدمے کا اندراج سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر آپ عورت مارچ کے خلاف ہیں تو آپ اس کی مخالفت ضرور کریں مگر خدارا توہین مذہب کے سنگین الزامات لگا کر شرکاء کی زندگیوں کو خطرے میں نا ڈالیں۔ آپ عورت مارچ سے ہزار اختلاف کرسکتے ہیں مگر کسی کے ایمان کو ترازو میں نہیں تول سکتے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ صحافیوں، بلاگرز اور سیاسی کارکنوں کے خلاف جھوٹی درخواستوں پر بے بنیاد انکوائری شروع کردیتا ہے اور مقدمات تو قائم کردیتا ہے مگر اس سنگین معاملے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نفرت اور شرانگیزی پھیلانے والوں اور عورت مارچ کے آرگنائزرز پر توہین مذہب کا الزام لگانے کے لئے ویڈیو ایڈیٹ کرنے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی کرے اور اس شرانگیزی میں ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔