Get Alerts

زرداری کے بوجھ سمیت بلاول بڑا لیڈر نہیں بن سکتا

زرداری کے بوجھ سمیت بلاول بڑا لیڈر نہیں بن سکتا
نوجوان قیادت کا نعرہ بہت گونجتا رہا ہے اور ہم نوجوان قیادت اور یوتھ پارٹی کے نتائج بھگت بھی رہے ہیں۔ بانجھ ہوتی ہوئی سیاست میں پیپلز پارٹی ابھی تک امید کی کرن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے تمام نعرے، نظریات، پروگرامز اور جذبات زمین بوس ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی قیادت بے نقاب ہو کر پریشانی میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی پوری سیاست میں ایک دانہ باقی رہ گیا ہے۔ باقی سب پٹ چکے ہیں۔ وفاقی سطح پر سیاسی قیادت کے شدید بحران میں پیپلز پارٹی کا نوجوان لیڈر چیئرمین بلاول بھٹوزرداری واحد چوائس ہے۔ جس طرح الیکشن 2018 سے قبل عمران خان واحد چوائس نظر آتے تھے۔



بلاول کا معاملہ عمران خان یا پی ٹی آئی کی سیاست سے مختلف ہے۔ بلاول نظریاتی سیاست اور سیاسی پروگرام پر یقین رکھتے ہیں۔ امپائر کے فیصلوں کی جانب دیکھتے ہیں اور نہ ایسی سیاست کے قائل ہیں۔ بلاول کی وارثت نظریاتی اور مزاحمتی سیاست ہے جو دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف آصف علی زرداری، فریال تالپور سے لے کر شرجیل میمن تک پارٹی کی سیاست ہے اور دوسری طرف پارٹی کی حقیقی اساس، نظریات اور مزاحمتی سیاست کا خمیر ہے۔ دونوں پارٹ پر چلنے کی کوشش بلاول کی سیاست اور مزاحمت کو مشکوک بنا دے گی۔ اس صورتحال میں بلاول اک کھرا اور سچ حقیقی عوامی لیڈر نہیں کہلائے گا۔



موجودہ عہد میں پاکستانی عوام کو ایک بھٹو کی ضرورت ہے جس کی آواز، جس کے آدرش عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوں۔ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے عہد سے عوام نکل آئے ہیں اور جان چھڑانے والی صورتحال سے دوچار ہیں۔ بلاول کو اب دو ٹوک اور اٹل سیاسی مؤقف اختیار کرتے ہوئے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر بلاول مزاحمتی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ جیسا کہ وہ ظاہر کر تے ہیں اور بولتے ہیں، تو پھر لازمی ہے کہ بلاول آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے ہر رہنما کے مقدمات سے برأت کا اعلان کرے اور پارٹی میں ایسے تمام افراد جن پر کسی بھی قسم کے الزامات ہیں ان کو عہدوں سے فارغ کر دے اور خود کو بھی کسی کاروباری ادارے سے منسلک نہ رکھے۔



مزاحمتی سیاست کا تقاضا ہے کہ لیڈر کی کوئی کمزوری اس کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے۔ آج بلاول اگر بالادست طبقات اور حکمران اشرافیہ کے خلاف مؤقف اپناتے ہیں تو عوام میں ماسوائے ایک سیاسی چال کے کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ بلاول ابھی بہت کمزور ہیں۔ بلاول کو خود بھی نیب کے مقدمات کا سامنا ہے اور پارٹی کے رہنماؤں سمیت والد آصف زرداری اور پھوپھی فریال بھی پیشیاں بھگت رہی ہے۔

اس صورتحال میں جارحانہ سیاست اور سخت لہجہ ذاتی جنگ کی چغلی کھاتا ہوا نظر آئے گا، جو کہ حقیقت بھی ہے۔ مریم نواز کے ساتھ بلاول کی بیٹھک سے بھی عمومی تاثر یہی ابھرا ہے کہ بڑے اپنی جنگ لڑنے کے لئے بچوں کے کندھے استعمال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہی بیٹھک اگر بلاول کی منظور پشتین کے ساتھ ہوتی تو بڑی بریکنگ نیوز بننے کے زیادہ امکانات تھے۔



بلاول کے پاس وقت ہے۔ توانائی ہے۔ جرأت وبہادری ہے۔ بات کہنے کا ڈھنگ اور حوصلہ بھی ہے۔ کارکنان اور سیکنڈ لین قیادت سمیت پاکستان کی سب بڑی جمہوری سیاسی پارٹی ورثے میں ملی ہے۔ بلاول کو مریم نواز کی ضرورت ہے اور نہ پی ٹی ایم اور دیگر سیاسی قوتوں کے سہارے کی حاجت ہونی چاہیے۔ اسے بڑا اور دبنگ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آصف زرداری سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقدمات سے علیحدگی کا اعلان کر کے اپنی راہیں جدا کر لیں اور نئی پیپلز پارٹی کی تشکیل کریں۔ ایسی پارٹی جس کے کسی لیڈر کے اوپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

بلاول اگر یہ کام کرتے ہیں تو پاکستان کے عوام انہیں حقیقی عوامی لیڈر تسلیم کرنے میں تامل نہیں کریں گے۔ عوام بہت دھوکے کھا چکے ہیں۔ قرآنی آیات کو جلسوں میں اپنی عظمت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے والوں نے سیاست کو اس موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں سے سیاست کی واپسی دبنگ انداز سے ہو سکتی ہے۔ اب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔