چیف جسٹس آف پاکستان نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہوسکتا ہے یہ کوشش غیر شعوری ہو۔ اگر حکومت نے نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ہے۔
چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ آڈیو کمیشن کیخلاف سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر شامل، جسٹس شاہد وحید جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدر اختر شطیر پیش، درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں موجود ہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے اور چیف جسٹس سے مقدمہ نہ سننے کی استدعا کردی۔ چیف جسٹس نے ریماکس دئیے کہ آپ کو اعتراض کرنے کی اجازت ہے،3 بار حکومت نے کمیشن ممبران تعینات کرکے واپس لیے،پلیزحکومت سے کہیں کہ آئینی روایات کی پیروی کریں،یہ عدالت کے ججز میں تفریق ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے عدلیہ میں تقسیم کی کوشش نہیں کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے اگر نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب، عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہو گیا آپ بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ہم نے سوال پوچھا کہ 184 (بی) میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو۔ اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بہتر راستہ بتاتے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ محترم کیا آپ ہمارے انتظامی امور میں مداخلت کریں گے؟ آپ کی تو فل کورٹ والی استدعا بھی اپنے ہی قانون کے خلاف تھی، آپ نے جو قانون بنائے وہ جلد بازی میں بنائے۔ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں ۔ ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔ حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ۔ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سانحہ 9 مئی کا عدلیہ کو فائدہ ہوا اور مخالف بیان بازی بند ہوگئی، ہماری کوئی انا نہیں، بس آئین کے کچھ اصول ہیں، آپ نے ہماری مشاورت کے بغیر قوانین بنا دیے۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس کی مشاورت سے ہی بنایا جاسکتا ہے۔ کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کارروائی کرنی ہوتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نے فون ٹیپ کیا وہ غیر قانونی ہے مگر حکومت اس مجرمانہ کام کو ٹھیک تصور کر رہی ہے۔یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ کسی کا بھی فون ٹیپ کرنا جرم ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے۔ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے۔ حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔ اس کا تعین کون کرے گا؟
شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 209کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔ جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے۔ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے۔ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن نےپورے پاکستان کونوٹس کیا کہ جس کے پاس جوموادہےوہ جمع کراسکتاہے.کسی قانونی طریقہ کارپرعمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے رہمارکس دیے کہ اس کمیشن کاقیام آرٹیکل 209کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کوبھیجاجاسکتاہے۔ بظاہرحکومت نےججزکےخلاف مواداکٹھاکرکےمس کنڈکٹ کیا۔ حکومت یا پیمرا نے آڈیو چلانے سے روکنے کی ہدایت نہیں کی۔
شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پرکوئی کارروائی نہیں کی حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔ اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں،۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نےاختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی. لگتاہےانکوائری کمیشن نےہرکام جلدی میں کیا ہے.ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ میٹھےالفاظ استعمال کر کے کوردینےکی کوشش کی گئی اور بظاہراختیارات کی تقسیم کےآئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آڈیولیکس انکوائری کمیشن پرسماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا.عدالت نے کہا کہ کیس کا مختصرحکم نامہ جاری کریں گے۔
واضح رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے.سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔ آڈیو لیکس کمیشن نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے آڈیوز سے جڑی چار بڑی شخصیات کو 27 مئی کو طلب کر رکھا ہے۔
کمیشن کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، سینئر ایڈووکیٹ طارق رحیم اور مبینہ آڈیوز میں سینئر وکیل سے گفتگو کرنے والے صحافی کو طلب کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن نے پہلا اجلاس پیر کو منعقد کیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن کا اگلا اجلاس ہفتےکی صبح 10بجے سپریم کورٹ عمارت میں ہونا ہے۔