جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سرکردہ رہنما مفتی کفایت اللہ نے نادرا کی جانب سے حافظ حمداللہ کو پاکستانی شناخت سے محروم کرنے پر نیادور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ تنقیدی آوازوں کو دبانا چاہتی ہے، حافظ حمداللہ کا معاملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پاکستان کی میڈیا ریگولیٹری باڈی (پیمرا) کی جانب سے آج ایک مراسلہ جاری ہوا جس میں انھوں نے دعوی کیا کہ نادرا کی تحقیق کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ حافظ حمد اللہ صبور پاکستانی شہری نہیں۔
پیمرا نے واضح کیا کہ حافظ حمداللہ کی پاکستانی شہریت نہیں ہے اس لئے ملک کے تمام ٹی وی چینلز موصوف کو ٹی وی ٹاک شوز میں بلانے سے اجتناب کریں۔
معاملے پر جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ نے نیا دور میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے دعوی کیا کہ 'حافظ حمداللہ ساٹھ کی دہائی میں سرکاری ملازمت سے وابستہ تھے اور پاکستان میں ان کی زمینوں کے تمام ریکارڈ تاحال محفوظ ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کو ملک کی اعلی عدلیہ میں چیلینج کیا جائے گا جس کے بعد تمام ریکارڈ عدالت کو فراہم کیا جائے گا۔
نیا دور میڈیا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے موقف اپنایا کہ عمران خان کی حکومت جس کو قومی اسٹیبلشنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے، مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حافظ حمد اللہ ایک قومی آواز کے طور پر سامنے آرہے ہیں، جن کی وجہ سے ان کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ حافظ حمداللہ کی شناخت پر ایک ایسے وقت میں حملہ کیا گیا جب ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آزادی مارچ کا اغاز ہوا اور حکومت کی بوکھلاہٹ اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوا، یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئینگے اور سلیکٹڈ حکومت کو گھر جانا ہو گا۔
مفتی کفایت اللہ نے موقف اپنایا کہ نااہل حکومت جب عوام کو سہولیات دینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر ان کے خلاف آواز اٹھانا فرض ہوجاتا ہے تاکہ پسے ہوئے غریب عوام کا مداوا کیا جائے۔ مفتی کفایت اللہ نے موقف اپنایا کہ حکومت کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو آزادی مارچ مقررہ وقت پر ہو گا اور مارچ تب تک جاری رہے گا جب تک عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا خاتمہ نہیں ہوگا، ملک کچھ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور جمیعت علمائے اسلام ف ملک کو حقیقی جمہوری اور آئینی آزادی سے روشناس کرائے گی۔
نیا دور میڈیا نے چیئر مین نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اس معاملے پر موقف لینے کے لئے بار بار رابطہ کیا مگر رسائی نہیں ہوسکی۔