2023 میں اقلیتی برادری کی 82 لڑکیاں اغوا ہو چکی ہیں

ان 82 میں سے 64 لڑکیوں کو اغوا کے بعد ان کا مذہب تبدیل کیا گیا، جبکہ 17 کی تاحال کوئی خبر نہیں۔ اغوا کی جانے والی 40 لڑکیوں کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان اور 21 لڑکیاں 14 سال کی عمر سے بھی کم تھیں جبکہ 11 لڑکیوں کی عمریں ظاہر نہیں کی گئیں۔ غالب امکان ہے کہ وہ بھی نابالغ ہوں گی۔

2023 میں اقلیتی برادری کی 82 لڑکیاں اغوا ہو چکی ہیں

2023 کا پہلا سورج طلوع ہوا توعبادت گاہوں اور نجی زندگی میں خوش بختی کی دعائیں مانگی گئیں۔ ایک عام شہری یا مذہبی اقلیت یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا فرد بھلا عزت، تحفظ، روزگار، روٹی، کپڑا، مکان، وقار، ملن اور بہتر مستقبل سے بڑھ کر اور کیا مانگ سکتا ہے؟

گذشتہ سے پیوستہ تجربات کی بنیاد پر مذہبی اقلیتوں نے بھی عزت کی روٹی، چادر اور چاردیواری کے تقدس اور جان و مال کے تحفظ کو دعاوں، التجاؤں، مطالبوں اور مناجاتوں میں سرِفہرست رکھا۔ پھر سال کے دن مہینوں میں اور مہینے ہفتوں میں بدلتے گئے مگر وطنِ عزیز میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی حالتِ زار بدلی اور نا ہی اُن کی ایذا رسانیوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

بیتے ہوئے کئی سالوں کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی جنوری میں ہی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی کم عمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے اغوا، جبری شادیوں اور جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کر دیا اور حکومت کو ان واقعات کی روک تھام اور متاثرین کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان کارروائیوں کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔ ملک کے اندر قانون سازی اور بین الاقوامی وعدوں کے مطابق تحقیقات کرے، نیز ماہرین نے ملزمان کو مکمل طور پر جواب دہ ہونے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے پر بھی زور دیا۔

حوالہ: https://www.ohchr.org/en/press-releases/2023/01/pakistan-un-experts-urge-action-coerced-religious-conversions-forced-and

بہرحال ان بین الاقوامی مطالبات کے باوجود مذہبی اقلیتوں کی ایذا رسانیاں جاری رہیں۔ انہیں نہ تو عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا، نہ جان و مال کا تحفظ ملا اور نا ہی چادر اور چاردیواری کا تقدس نصیب ہوا۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری سے 21 ستمبر 2023 تک اقلیتی لڑکیوں کے اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کے 82 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اغوا ہونے والی ان 82 میں سے 72 لڑکیاں ہندو اور 10 مسیحی ہیں۔ ان میں سے 70 لڑکیاں سندھ کے مختلف اضلاع، 11 پنجاب اور ایک بلوچستان میں اغوا کی گئی۔

پاکستان میں محفوظ سمجھی جانے والی اقلیتوں کی ان 82 میں سے فقط 9 لڑکیاں قسمت کی دھنی نکلیں جو اپنے خاندانوں کو واپس آن ملیں۔ ان میں سے 2 اغوا کاروں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں جبکہ 7 کو پولیس نے بازیاب کروایا۔

82 میں سے 64 لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کا مذہب تبدیل کیا گیا، جبکہ 17 کی تاحال کوئی خبر نہیں۔ اغوا کی جانے والی 40 لڑکیوں کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان، جبکہ 21 لڑکیاں 14 سال کی عمر سے بھی کم تھیں۔ جبکہ اغوا ہونے والی 11 لڑکیوں کی عمریں ظاہر نہیں کی گئیں اورغالب امکان یہی ہے کہ وہ بھی نابالغ ہوں گی۔

درج بالا صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس کا تدارک بھی اتنا ہی ضروری ہونا چاہیئے۔ موجودہ نگران سیٹ اپ کے دوران ضروری ہے کہ انتظامیہ اور عدالتیں ان واقعات کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ جبری تبدیلی مذہب کی شکایات تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 498 بی کے تحت درج کی جایئں جو اقلیتی خواتین کو جبری شادیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھی۔

مذہبی اقلیتوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، لہٰذا سانجھے اور سب کے مشترکہ پاکستان کے خیال کو نہ صرف تقویت دینے کی ضرورت ہے بلکہ مذہبی آزادی اور مذہبی تنوع کو قبول کرنے اور فروغ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئیے۔ تمام عقائد کا احترام کیا جائے اور ہر شخص کی مذہبی آزادی کو ترجیح دی جائے۔ پسماندہ طبقات کو آزاد مرضی اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئیے اور حکومت کو اُن کی کمسن اور جوان لڑکیوں کے جان و مال اور عقیدے کے تحفظ کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔