ایکتا کماری کی گمشدگی: ہندو لڑکی کو ہندو لڑکے سے تو پسند کی شادی کا حق ہونا چاہیے

ایکتا کماری کی گمشدگی: ہندو لڑکی کو ہندو لڑکے سے تو پسند کی شادی کا حق ہونا چاہیے
دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کراچی سے لاپتہ ہوئیں تو قومی ذرائع ابلاغ پر صبح، دوپہر اور شام ان کی بازیابی سے متعلق ہونے والی پیشرفت پر مبنی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی رہیں۔ لیکن ضلع سکھر کے قصبے نما شہر کندھرا سے لاپتہ ہونے والی ایکتا کی خبر قومی میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہی۔

کندھرا کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ "ایکتا اپریل کے ابتدائی ایام میں گھر سے غائب ہوئی، اس کے اغوا کا مقدمہ 8 اپریل 2022 درج کروایا گیا۔ تاہم لڑکی اب تک بازیاب نہیں ہو سکی"۔ معاملے سے متعلق جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ایکتا کے ماموں پردیپ کمار نے خیرپور کے رہائشی ایک شخص کملیش کمار، اس کی والدہ اور بہن سمیت 6 ملزمان کے خلاف ایکتا کو بزور اسلحہ اغوا کا مقدمہ درج کرایا ہے۔

اس مقدمے کے تحت کندھرا پولیس نے لڑکی بازیابی کیلئے خیرپور شہر میں کملیش کے گھر پر 10 اپریل کی رات چھاپہ مارا اور ایکتا کی عدم موجودگی پر کملیش کی بہن سنیتا کو حراست میں لے کر وومن پروٹیکشن سیل پر رکھا۔ کملیش کی بہن کو حراست میں لینے کی خبر سندھی زبان میں شایع ہونے والے ایک روزنامے "پہنجی اخبار" میں 11 اپریل کو شائع ہوئی۔

خیرپور سے تعلق رکھنے والے وکیل رجب منگریو کا کہنا ہے کہ "پولیس نے جب کملیش کی بہن کو حراست میں لیا تو اس کی والدہ نے وکلا سے رابطہ کیا اور میں نے ایس ایس پی خیرپور ملک ظفر اقبال سے رابطہ کرکے استدعا کی کہ کملیش کی بہن کی گرفتاری کیخلاف قانون ہے اس وجہ سے اسے رہا کیا جائے۔ بصورت دیگر پولیس کے اس عمل کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی جائے گی۔ جس کے بعد لڑکی کو رہا کیا گیا"۔

معاملے کی مزید چھان بین کی خاطر کندھرا میں ہندو برادری کی پنچایت کے مُکھی لدھو مل سے رابطہ کیا گیا۔ مُکھی لدھو مل نے بتایا کہ "کملیش نے لڑکی سے گمبٹ کے ایک پنڈت کے ہاں ہندو مذہب کے رسومات کے مطابق شادی کر لی ہے۔ یہ شادی غیر قانونی ہے کیونکہ ایکتا کی عمر ب فارم کے مطابق 14 سال ہے اور صوبہ سندھ میں شادیوں سے متعلق قوانین کی رُو سے لڑکی 18 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہی اپنی مرضی سے شادی کا فیصلہ کرسکتی ہے"۔



مُکھی لدھو مل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ "شادی اس وجہ سے بھی غیر قانونی ہے کیونکہ شادی کی گواہی دو مسلمانوں سے لی گئی ہے جبکہ ہمارے دھرمی روایات اور ہندو میرج لا کے مطابق گواہ بھی ہندو ہونے چاہیں۔"

ایکتا کی عدم بازیابی سے متعلق رائے دیتے ہوئے مُکھی لدھو مل کا کہنا تھا کہ "پولیس نے لڑکی کے فرار میں سہولت کاری کرنے والے ایک شخص بھوجو مل اور کملیش کی بہن کو حراست میں بھی لیا تھا لیکن انہیں دباؤ پڑنے پر چھوڑ دیا اور لڑکی بھی بازیاب نہیں کرائی جا سکی۔ جو کہ لڑکی کے والدین کیلئے انتہائی تشویش کا باعث ہے"۔

وکیل رجب منگریو نے بھی تصدیق کی ہے کہ "لڑکے نے لڑکی کے ساتھ پنڈت کے روبرو مذہبی رسومات کے مطابق شادی کر لی ہے اور لڑکی کے والدین اور پنچایت کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیش کورٹ خیرپور میں ان کی جانب سے ہراسمنٹ سے تحفظ دیئے جانے سے متعلق ایک درخواست بھی دائر کی گئی جس کی سماعت 21 اپریل کو مقرر ہوئی لیکن لڑکا لڑکی پیش نہ ہوئے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ کملیش گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہے"۔

اس ضمن میں کندھرا تھانے کے ایس ایچ او سید عبدالخالق شاہ جیلانی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ "لڑکی کی بازیابی اور ملزم کی گرفتاری کیلئے ہم نے چھاپے مارے لیکن لڑکی تاحال بازیاب نہیں کروا سکے ہیں"۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ "لڑکا اور لڑکی سندھ ہائی کورٹ سکھر بنچ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہم نے شادی کر لی ہے جس کی وجہ سے ہمیں تحفظ دیا جائے ان کی درخواست پر عدالت عالیہ نے ہمیں گرفتاریاں عمل میں لانے سے روک دیا ہے۔ لڑکا لڑکی کے کیس کی اگلی سماعت عید کے بعد متوقع ہے"۔

ایکتا اور کملیش کی شادی کی تصدیق کی خاطر گمبٹ سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے ایک مہاراج جو کہ مذہبی رواج کے مطابق شادی کروانے کے امور سرانجام دیتے ہیں ان سے بھی رابطہ کیا گیا۔ پنڈت موتی لعل نے کہا کہ "یہ شادی میں نے نہیں کروائی۔ گمبٹ میں اور بھی پنڈت ہیں، ہو سکتا ہے کسی اور نے کروائی ہو۔ لیکن اس قسم کی شادی کا چلن ہماری برادری میں بالکل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی کیس آتا ہے تو ہم جوڑے سے عدالت سے حاصل کیا گیا اجازت نامہ طلب کرتے ہیں اور دیگر قانونی دستاویزات بھی شمار کئے جانے کے بعد ہی رسومات مکمل کرتے ہیں"۔



کندھرا کے مقامی لوگوں کی جانب سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق کملیش کمار کے گھرانے کا آبائی شہر صالح پٹ ہے جبکہ بہتر ذرائع معاش ڈھونڈنے کی غرض سے وہ خیرپور منتقل ہوئے بکہ کملیش کے ننہیال کندھرا سے ہیں جس کی وجہ سے اس کا رابطہ ایکتا سے ہوا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ کملیش پہلے سے شادی شدہ ہے یا اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ اس بات کی تاہم مکمل تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری طرف کندھرا کے مکھی لدھو مل نے بار بار رابطہ کرنے پر یقین دلایا کہ وہ ایکتا کا ب فارم مہیا کریں گے لیکن ایکتا کی تصویر اور ب فارم ان کی جانب سے تاحال میسر نہیں ہو سکا۔ اس معاملے پر رائے دیتے ہوئے ایک ہندو نوجوان ہریش کمار کا کہنا تھا کہ "ہماری برادری میں پسند کی شادی نہ ہونے کے برابر ہے جیسے کہ اس پر غیر اعلانیہ بندش ہے۔ شادی والدین اور دیگر رشتہ داروں کی پسند سے مکمل دیکھ بھال کے بعد دوسرے شہر سے تعلق رکھنے والی لڑکا یا لڑکی سے اور یہ یقین کر لینے کے بعد ہوتی ہے کہ دونوں خاندانوں کی پہلے سے کوئی رشتہ داری موجود نہ ہو۔ گھر سے بھاگ کر شادی کو تو کلنک کہا جاتا ہے۔ یہ لڑکی کے والدین کیلئے بہت ہی بھیانک واقعہ ہوتا ہے۔ جبکہ پنڈت تب تک پھیرے نہیں کرواتا جب تک کہ پنچایت کا مکھی شادی کی تائید نہ کرے"۔

سکھر میں ہندو برادری کیلئے سماجی کام کرنے والے شخص ہاسانند مل نے کہا کہ "ہمارے ہاں پسند کی شادی بھی اس صورت میں ممکن ہے کہ لڑکا یا لڑکی کسی کو پسند کریں تو شادی کی بات ان کے والدین نے مکمل کرنی ہوتی ہے لیکن کئی طرح کے مطالبے اور خاندانی پس منظر کے لوازمات ایسے ہوتے ہیں کہ اکثر پسند والا رشتہ نہیں مل پاتا۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں میں اس رواج سے متعلق ناپسندیدگی بڑھ رہی ہے"۔

ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں سندھ سے تعلق رکھنے والی ہندو لڑکیوں کے اغوا، زبردستی کی شادی اور مذہب تبدیل کرنے سے متعلق کئی سٹوریز شائع ہوتی رہی ہیں۔ ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہو کر پسند کی شادی کرنے پر ہندو برادری کے نمائندے پارلیمان سمیت تمام نمایاں فورمز پر احتجاج کرتے ہیں لیکن اس ہندو لڑکی کہ جس سے متعلق یہ خبر مل رہی ہے کہ اس نے ہندو لڑکے سے شادی کی ہے اس کی بازیابی کیلئے ہندو برادری بھی آواز نہیں اٹھا رہی۔

ایکتا کے والد کا دکھڑا سننے اور ہمدردی کے دو لفظ کہنے کی غرض سے بھی کوئی ہندو رہنما ان کے گھر تک نہیں گیا۔ جبکہ اس واقعے میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان لڑکی کے گھر سے چلے جانے پر اتنے غصے میں آ جاتے ہیں کہ لڑکے کے گھر پر ایک ہی طرح کا دھاوا بولتے ہیں اور لڑکے کی رشتہ دار خواتین کو خاص طور پرہراساں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پسند کی شادی کرنے والے لڑکوں کی رشتہ دار خواتین کو بے توقیر کرنے کا رواج اب ختم ہونا چاہیے۔