اچھرہ واقعہ؛ 'ریاست آنکھیں بند رکھے گی تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے'

25 کروڑ عوام کے ملک میں پچھلی چار دہائیوں سے فرقہ پرستی کی جو آگ پھیلائی گئی ہے اس کے نتائج اب ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ریاستی اور معاشرتی سطح پر جاری اس تسلسل کو قانونی اور معاشرتی طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ریاست کو اپنا متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔

اچھرہ واقعہ؛ 'ریاست آنکھیں بند رکھے گی تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے'

قانونی ماہرین، دینی حلقوں اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ کچھ لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے جو مذہب اور سماج کیلئے اچھا شگون نہیں ہے، اس سے مذہب کی کوئی خدمت نہیں ہوتی۔ قانونی ماہرین کے مطابق اچھرہ بازار میں لوگوں کا لباس سے متعلق اپنایا گیا نکتہ نظر جہالت پر مبنی ہے، ریاست کو مذہبی عناصر کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت ختم کرنی چاہیے اور قوم کو مہذب بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔

'نیا دور' نے لاہور کے پر ہجوم بازار میں ایک خاتون کے لباس پر عربی حروف کی کیلیگرافی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر قانونی اور دینی حلقوں سے بات کی جس کا احوال درج ذیل ہے۔

معروف قانون دان ایڈووکیٹ عابد ساقی کیا کہتے ہیں؟

معروف قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ایڈووکیٹ عابد ساقی سے جب سوال کیا گیا کہ اچھرہ واقعہ سے متعلق کہا گیا کہ خاتون کو لاعلمی کی بنا پر ہراساں کیا گیا، قانون اس سے متعلق کیا کہتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ خاتون نے ایسا لباس پہنا تھا جس پر لکھے الفاظ کا قرآن یا حدیث سے قطعی کوئی تعلق نہیں تھا تو جہالت کی بنیاد پر اسے ہراساں کیا گیا۔ 25 کروڑ عوام کے ملک میں پچھلی چار دہائیوں سے فرقہ پرستی کی جو آگ پھیلائی گئی ہے اس کے نتائج اب ہمارے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب لوگ بغیر سوچے سمجھے مذہبی بنیادوں پر دوسروں کو وکٹمائز کرنا شروع کر دیتے ہیں، انہیں قتل کر دیتے ہیں، لوگوں کے گھروں کو جلا دیتے ہیں۔ ریاستی اور معاشرتی سطح پر جاری اس تسلسل کو قانونی اور معاشرتی طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ریاست کو اپنا متحرک کردار ادا کرنا چاہیے اور مظلوم لوگوں کو مذہبی نفرت کی آگ میں جھلسنے سے بچانا چاہیے۔

لباس کے حوالے سے اپنایا گیا نکتہ نظر جہالت پر مبنی ہے۔ اس کی بنیاد پر معصوم لوگ تشدد اور ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ ریاست کو مذہبی عناصر کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت کو ختم کرنا چاہیے اور قوم کو مہذب معاشرے میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں؛ اچھرہ بازار واقعہ؛ 'معافی ہراساں کرنے والوں کو خاتون سے مانگنی چاہیے'

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ہراسانی کے خلاف کارروائی صرف متاثرہ خاتون کر سکتی ہے یا ریاست بھی اس ضمن میں کچھ کر سکتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس ہراسانی کے خلاف ریاست بھی کارروائی کر سکتی ہے اور متاثرہ خاتون بھی، لیکن متاثرہ خاتون جس طرح اتنی مشکل سے جان بچانے میں کامیاب ہوئی ہے تو وہ کوئی کارروائی نہیں کرے گی لیکن یہ ریاست کا کردار ہونا چاہیے کہ جن لوگوں نے خاتون کو ہراساں کیا ہے اور اس پر تشدد کرنے کی کوشش کی ہے ریاست خود ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ لیکن اب ریاست بھی اس معاملے پر آنکھیں بند کر لے گی۔ جب ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے واقعے پر بھی ریاست آنکھیں بند کر لیتی ہے تو مذہبی تشدد کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔ ریاست کو اپنا متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مذہبی سکالر صاحبزادہ امانت رسول کا مؤقف

مذہبی سکالر صاحبزادہ امانت رسول کہتے ہیں کہ کسی پر تمہت یا الزام لگانا خاص طور پر کسی کے کردار اور پاک دامنی پر الزام لگانے پر 80 کوڑے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان کے بقول تعزیرات پاکستان کے مطابق بھی کسی پر تمہت لگانے سے اس کی جان خطرے میں پڑ جائے تو یہ بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ اس کی دنیا میں بھی سزا ہے اور آخرت میں بھی سزا ہے۔

صاحبزادہ امانت رسول نے کہا کہ اچھرہ بازار میں خاتون کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سراسر غلط ہے۔ اگر اس خاتون کے لباس پر کچھ لکھا بھی ہو تو کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ اس پر حملہ آور ہو جائے۔ اس سے نقص امن اور کوئی بھی بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا جرم ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے تو متعلقہ ادارے یا پولیس کو اطلاع دی جائے۔

مذہبی سکالر نے واضح کیا کہ ہمارے ہاں فتویٰ کا جیسا ماحول ہے اور ہم قانون اور فقہہ کو زیادہ زیر بحث لاتے ہیں اور اسی آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کردار سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس پر کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ بدگمانی، بد کلامی، الزام، تہمت کتنے بڑے جرم اور گناہ ہیں، اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔

ماہر قانون ایڈووکیٹ طاہر سلطان کی رائے

فوجداری قانون کے ماہر طاہر سلطان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کسی شہری کو ہراساں کرنے پر قانون حرکت میں آتا ہے لیکن یہاں معاملات کچھ ایسے ہیں کہ کچھ لوگ لاعلمی میں ایسی حرکت کرتے ہیں، ان کی نیت ایسی نہیں ہوتی کہ کسی کو نقصان پہنچایا جائے۔ ہم عربی میں عبادات کرتے اور نمازیں پڑھتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کے معنی کا علم تک نہیں ہوتا کہ پڑھ کیا رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ طاہر سلطان کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ سب کو پتہ ہونا چاہیے لیکن ہم اس پر غور نہیں کرتے۔ اس طرح مذہب کو نقصان پہنچتا ہے، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی بھی بات ہو وہ حقائق کی بنیاد پر کرنی چاہیے اور لاعملی کی بنیاد پر اور بغیر تحقیق کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو بدنامی کا باعث بنے۔

محمد طاہر سلطان کھوکھر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بطور مسلمان ہمیں اپنے مذہب کے متعلق صحیح معلومات رکھنی چاہئیں اور کسی کو ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے اس طرح کے معاملات کو تحریک ملے۔ لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے اس خاتون کو گھیرے میں لیا جو مناسب نہیں تھا۔

پولیس اور انتظامیہ کا کیا کردار رہا؟

خاتون کو تحفظ دینے اور ہجوم کے گھیرے سے نکالنے والی خاتون پولیس افسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی نے بتایا کہ اچھرہ بازار میں خاتون اکیلی نہیں بلکہ ان کا شوہر بھی ان کے ساتھ تھا۔ اے ایس پی کے مطابق ایک آدمی نے خاتون کے لباس کو دیکھا تو کہنا شروع کر دیا کہ نعوذ باللہ خاتون نے قرآنی آیت والا جوڑا پہن رکھا ہے اور دوسرے آدمی نے فوری طور پر خاتون کو ایک جانب لے جا کر کہا کہ وہ اس لباس کو تبدیل کرے جس پر خاتون نے کہا کہ وہ کیوں لباس کو تبدیل کرے؟ اسی بحث کے دوران ہی معاملہ شدت اختیار کر گیا اور بھیڑ ہونے کے بعد صورت حال قابو سے باہر ہوئی۔

اے ایس پی نے بتایا کہ موقع پر موجود لوگوں کو لگا کہ لباس پر قرآنی آیات لکھی ہیں، خاتون نے گستاخی کی ہے اور اسی لیے اس خاتون کو سزا ملنی چاہیے۔

خاتون پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی طور پر جو سامنے آیا اس کے مطابق خاتون کے لباس پر کوئی قرآن کی آیت نہیں بلکہ عربی کیلیگرافی تھی اور جو لفظ اس لباس پر لکھا ہوا تھا وہ سوشل میڈیا پر بھی آ چکا ہے۔ اس کے لفظی معنی اچھائی، زندگی اور انسانیت کے ہیں۔ خاتون نے جو لباس پہنا تھا وہ ایک مسلمان ملک کے برانڈ کا تیار کردہ ہے۔

خاتون پولیس افسر نے زور دیا کہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام واقعہ محض ابہام کی بنیاد پر رونما ہوا تھا۔ یہاں کوئی آمنے سامنے نہیں ہے یا یہ الزام نہیں ہے کہ اس خاتون نے یہ جرم کیا ہے۔ پولیس کے مطابق فریقین نے رضامندی سے بیانات دیے ہیں اور یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ اب اس ضمن میں مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔

منیر باجوہ صحافی ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ نیا دور میڈیا کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔