چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریلوے خسارہ کیس میں ادارے کی آڈٹ رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ریلوے سے زیادہ کرپٹ پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں۔
سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بجائے مینول ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ریلوے میں کوئی چیز درست انداز میں نہیں چل رہی، دنیا بلٹ ٹرین چلا کر مزید آگے جا رہی ہے اور ہم آج بھی اٹھارویں صدی کی ریل چلا رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ میں وزیر ریلوے کا نام لیے بغیر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزارت سنبھالنا، ان کا کام نہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ محکمہ ریلوے میں نہ مسافر ہیں نہ مال گاڑیاں چل رہی ہیں، ریلوے پر سفر کرنے والا ہر فرد خطرے میں سفر کر رہا ہے، نہ ریلوے اسٹیشن درست ہیں نہ ٹریک اور نہ سگنل ٹھیک ہیں۔
اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، رپورٹ نے واضح کر دیا کہ ریلوے کا نظام چل ہی نہیں رہا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا بلٹ ٹرین چلا کر مزید آگے جا رہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی ہم اٹھارویں صدی کی ریل چلا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسافر گاڑیوں کا حال دیکھیں، ساتھ ہی پوچھا کہ ریلوے میں جو آگ لگی تھی اس معاملے کا کیا ہوا، جس پر وکیل ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ معاملے پر انکوائری ہوئی اور دو افراد کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چولہے میں پھینکیں اپنی کارروائی کو۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریلوے کے سی ای او عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے، جس پر وکیل نے کہا کہ سابق سی ای او کو نوٹس کیا گیا ہے موجودہ کو نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق کو کیا گیا تھا، یہ اہم کیس تھا تو موجودہ کو پیش ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوا لیں اپنے سی ای او کو، وہ کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ وہ اس وقت لاہور میں ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، سیکریٹری ریلوے اور سی ای او ریلوے کو منگل (28 جنوری) کو طلب کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کر دیا۔
خیال رہے کہ اپریل 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس وقت یہ نوٹس لیا گیا تھا اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے تھے۔
عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس لینے کے 7 روز بعد اس وقت کے وزیر خواجہ سعد رفیق نے پاکستان ریلوے میں ہونے والے خسارے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تھی جبکہ چیف جسٹس نے مذکورہ معاملے پر آڈٹ کا حکم دے دیا تھا۔