اکبر اور گدھے کے سینگ

اکبر اور گدھے کے سینگ
وزیر، مشیر استعفیٰ دیں یا ان سے لیا جائے، استعفیٰ، استعفیٰ ہوتا ہے۔ فرق مستعفی شخص کو رخصت کئے جانے کے انداز میں ہے۔ اگر مجاز اتھارٹی وضع داری کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، مستعفی شخص سے ایک مختصر سی الوداعی ملاقات کرکے اس کی خدمات کے اعتراف میں چند جملے ادا کر دیئے جاتے ہیں تاکہ سبکدوش ہونے والا شخص صدمے کو زیادہ دل پر نہ لے۔ اقتدار سے علیحدگی سے بڑا صدمہ کونسا ہے؟
مرزا شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دو روز قبل وزیراعظم نے اپنے مشیر احتساب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا جو انہیں بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا لیکن خان صاحب نے وہی کیا جس کا گلہ ریحام خان نے ان سے پہلے انٹرویو میں کیا تھا: "بہت دیر کی مہرباں آتے آتے"۔ لیکن ظاہر ہے "ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا"۔
شہزاد اکبر کی تعیناتی بھی اتنی ہی ضروری تھی جتنا ان کا استعفیٰ۔ یہ شہزاد اکبر ہی تھے جو حقائق کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوئوں پر ڈٹ گئے اور ساڑھے تین سال تک احتساب کے غبارے سے ہوا نکلنے نہیں دی جس کی طرف فواد چوہدری نے بھی اشارہ کیا کہ "شہزاد اکبر نے بڑے پریشر میں کام کیا"۔
غبارے کی ہوا کا پریشر تو ہوتا ہی ہے۔ یوں شہزاد اکبر نے بیرونِ ملک سے پھنسے ہوئے بلکہ دھنسے ہوئے اربوں ڈالرز واپس لانے کی امیدوں کو زندہ رکھا۔ کیونکہ مرزا جانتے تھے کہ تحریک انصاف کے حامیوں کے لیے دعاؤں اور امیدوں سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
انہیں بخوبی احساس تھا کہ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے احتسابی بیانیے کے ناقابلِ عمل ہونے کا یقین ہو چکا ہے مگر مخالفین کے خوف سے اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان خود احتساب کے عمل میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں لیکن ناکامی کا ملبہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں، اس صورت میں قربانی کے لئے شہزاد اکبر سے موزوں کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا تھا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شہزاد اکبر کا استعفیٰ عمران خان کے احتسابی بیانیے کے لئے بڑا دھچکا ہے، لیکن ہرگز نہیں۔ ناقدین نے اسد عمر کے استعفے کو بھی عمران خان کے معاشی خوشحالی کے بیانیے کے لئے دھچکا قرار دیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟
پے در پے دھچکوں کے بعد تحریکِ انصاف کی قوتِ برداشت میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوا ہے۔ ویسے بھی اگر حکمران شکست کو فتح اور ناکامی کو کامیابی قرار دینے میں ثابت قدم رہیں تو کوئی دھچکا دھچکا نہیں رہتا۔ دیواریں دھچکوں سے نہیں دھکوں سے گرتی ہیں۔
عنقریب عمران خان کمال خود اعتمادی سے شہزاد اکبر کے متبادل کے اوصاف گنوا کر قوم کو خوش خبری سنائیں گے کہ اب تو چوروں، ڈاکوؤں کو این آر او دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
شہزاد اکبرکی حیثیت بدنامِ زمانہ احتساب بیورو کے سیف الرحمان کے جدید ورژن سے زیادہ نہ تھی، یا شاید ایسے رینٹ اے ہینچ مین (Rent-A-Henchmen) جو اسٹیبلشمنٹ کے ’ناپسندیدہ‘ سیاست دانوں کو ایبڈو EBDO کرنے کے لئے استعمال ہو کر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ عجیب محاورہ ہے۔ حالانکہ گدھے کے سر پر کبھی سینگ تھے ہی نہیں جو غائب ہوتے۔ اگر گدھوں کے سر پر سینگ ہوتے تو پچھلے ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ میں کسی ایک گدھے کے سر پر ضرور نظر آتے۔