کچن گارڈننگ: وقت کی ایک اہم ضرورت

کچن گارڈننگ: وقت کی ایک اہم ضرورت
عام طور پر سبزیوں کو "حفاظتی خوراک" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان میں تمام تر صحتمند اجزاء جیسے لحمیات(پروٹین)، حیاتین(وٹامنز)، نشاستہ(سٹارچ)، نمکیات(منرلز) جو کہ جسم کی بہترین نشونما کیلئے ضروری ہیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ سبزیاں نہ صرف جسم سے فاسد مادوں کے اخراج میں معاون ہیں بلکہ یہ کولیسٹرول میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ اعصابی نظام کی بہتری میں بھی مددگار ہیں۔

ایک عام اندازے کے مطابق انسانی جسم کو اوسطاً روزانہ کی خوراک میں 280 گرام غذائی سبزیوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں یہ استعمال 100 گرام سے کچھ اوپر ہے۔اسکی ایک وجہ تو سبزیوں کا مہنگا ہونا اور کم پیداوار ہے۔ دوسری وجہ جو زیادہ خطرناک ہے وہ سبزیوں کا ناقص ہونا یے پاکستان چھٹا بڑی آبادی والا ملک ہے۔ جسکا ایک بڑا حصہ دیہی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس ملک کا مجموعی طور پر زیر کاشت رقبہ 22.1 ملین ایکڑ ہے۔ اس رقبہ پر کاشتکاری کی بنیادی  تقسیم یوں ہے کہ 65 فیصد حصہ پر غذائی اجناس اگائی جاتی ہیں۔ لگ بھگ 24 فیصد رقبہ نقد جنس جیسے کپاس،گنا اور تمباکو کی کاشت کیلئے مختص ہے۔ اور تقریباً 3 فیصد حصہ پر دالیں اور تیلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ  سبزیاں جو غذائی اعتبار سے توانائی کا بڑا ذریعہ ہیں انکی کاشت کا  رقبہ 3 فیصد ہے جو کہ کل زیر کاشت رقبہ کا 0.62 ملین ایکڑ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب تجارتی سطح پر سبزیوں کی کاشت ہو رہی ہے تو گھریلو سطح پر انکی کاشت کو کیوں یقینی بنایا جائے؟ تو اسکا آسان جواب یہ ہے کہ تجارتی سطح پر سبزیوں کی کاشت بغیر جدید ٹیکنالوجی، یوریا کھاد کے نا ممکن ہے۔ بہتر پیداوار حاصل کرنے کیلئے پیسٹی سائیڈز (زہریلی ادویات) کا استعمال ناگزیر ہے۔ جس سے سبزیوں کی کوالٹی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔کسان اس بات سے انجان ہے کہ انکے استعمال سے انسانی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے۔عام اندازہ ہے کہ آدمی اپنے بجٹ کا ساٹھ سے ستر فیصد حصہ سبزیوں کی خرید پر صرف کرتا ہے اور باقی رقم ان بیماریوں کے علاج پر جو انکے استعمال سے اسے لاحق ہوتی ہیں۔ عموماً یہ سبزیاں شہر سے باہر کاشت ہوتی ہیں اور ہم تک پہنچتے پہنچتے یہ اپنی تازگی کسی حد تک کھو چکی ہوتی ہیں۔ مزید برآں شہروں کے ارد گرد اگائی جانیوالی سبزیاں سیوریج اور گندے پانی سے تیار کی جاتی ہیں۔ یہ سبزیاں بھاری دھاتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ موذی امراض جیسے سرطان ہیپاٹائٹس کا موجب بنتی ہیں۔

گھریلو سطح پر یا نامیاتی طریقے سے اگی سبزیاں نہ صرف ہمارے لئے صحتمند ہیں بلکہ یہ غذائی اعتبار سے بھی مکمل ہیں۔ ہمارے بجٹ پر دباؤ بھی کم کرتی ہیں۔ غیر قدرتی طریقے سے اگی سبزیاں ہمارے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کچن گارڈننگ کو کو فروغ دیں۔

" کچن گارڈننگ" کا تصور "وکٹری گارڈن" سے لیا گیا ہے۔ جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ غذائی قلت کا شکار ہوا اور مارکیٹ میں دستیاب غذا ناکافی ہو گئی تو لوگوں نے گھریلو سطح پر سبزیوں کی کاشت کی۔ ستر کی دہائی میں جب کیوبا امریکی پابندیوں کا شکار ہوا تو عوام نے گھریلو سطح پر سبزیاں اگا کر اس بحران کا مقابلہ کیا۔ جاپان جیسا ملک اپنی ضروریات کی سبزیاں گھر پر اگانے کو ترجیح دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات اس قدر راسخ العقیدہ ہو گئی ہے کہ نامیاتی طریقے سے سبزیاں اگا کر ہی وہ بہتر صحت کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور گورنمنٹ گھریلو باغبانی کو فروغ دینے میں کوشاں رہتی ہے۔

گھروں میں سبزیاں اگانے کی افادیت مسلمہ ہے۔ بہتر صحت کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں خوش گوار ماحول بھی مہیا کرتی ہیں۔ باغبانی ہمارے ذہنی تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ہم اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہیں کہ جسمانی طور پر سستی اور کاہلی کا شکار ہوگئے ہیں۔ شہروں میں فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کچن گارڈننگ سے ہم اپنے گھر کی فضا کو تازہ ہوا سے بھر سکتے ہیں۔ باغبانی سے ہم ایک گھنٹے میں 400 کیلوریز جلاتے ہیں اور اپنی صحت کو یقینی بناتے ہیں۔

بہتر ہے کہ مصنوعی کھاد اور کیمیائی ادویات کے استعمال سے تیار ہونےوالی سبزیوں کا استعمال ترک کریں۔ گھروں پر سبزیاں کاشت کریں۔ یہ سبزیاں کیمیائی ادویات سے پاک ہوتی ہیں اور صاف پانی پر پرورش پاتی ہیں۔  ہمیں چاہئے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے کچن گارڈننگ کو اپنائیں۔ یہاں تک کہ اگر زمیں نہیں تو چھت پر سبزیاں اگائیں اور اگر چھت بھی نہیں تو گملوں میں۔ اگر برتنوں میں بھی ہمیں اگانی پڑیں تو بھی ہم اگائیں۔  حکومت کو چاہئے کہ وہ اگر کیمیائی ادویات کے استعمال پر پابندی عائد نہیں کر سکتی تو کچن گارڈننگ پر عوامی شعور کو اجاگر کرے۔ کیونکہ بہتر صحت کے ساتھ ہی ہم قومی ترقی کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔