حاصل کی ناقدری کیوں؟

حاصل کی ناقدری کیوں؟
لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو ہاتھ سے پھسل کر سمندر میں بہہ جائے اور رات دن اس کی تلاش کی جائے ایک بیوقوفانہ عمل ہے لیکن یہ بیوقوفانہ عمل تو ہم نے اپنا طرز زندگی بنا لیا ہے۔ اس کی تلاش ہے جو کہیں کھو گیا ہے یا وہ پانے کی چاہ ہے جو ہمارا ہے ہی نہیں۔

زندگی جو سمندر کی مانند ہے اور یہ سمندر اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ ہر کسی کے پاس موجود ہے لیکن ہم سب کو وہ ٹکڑا چاہیے جو پاس نہیں۔ یہ المیہ شاید اب اس دنیا میں موجود ہر شخص کا ہے جیسے اپنے ہاتھ خالی اور دوسری کے ہاتھ بھرے لگتے ہیں جہاں ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ دکھ تکلیف آزمائش انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور رہتی دنیا تک رہے گے وہاں یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ان الفاظ کے متضاد سکھ خوشی سکون اطمینان بھی انسانی زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑے گے۔

پھر کیوں ہر شخص اپنے پاس موجود غموں کی فہرست بنانے میں لگا ہے اور خوشیوں کو دوسروں کے گھر کا والی سمجھتا ہے۔۔لاحاصل کی تلاش کیوں حاصل کو فراموش کیے بیٹھی ہے۔

انسان اگر یہ چاہے کہ اس کی زندگی میں ہمیشہ خوشی رہے اور غم کا کوئی واسطہ نہ رہے تو ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ خوشی کیساتھ غم کا ہونا بھی انسان کی زندگی کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔

عجیب بات ہوگی نہ اگر ہم پھولوں کی خوبصورتی اس کی خوشبو کو چھوڑ کر پھولوں سے جڑے ان کانٹوں کا ذکر کرنے لگ جائیں جو پھولوں کا حصہ تو ہے لیکن اس کا تعارف نہیں۔ یہی حال کچھ ہم انسانوں نے اپنا بنا لیا ہے ہم اپنی نعمتوں کو بھول کر اپنی آزمائشوں کو یاد کرنے میں اتنا مصروف ہیں کہ اب تو عطا کردہ نعمتیں بھی یاد نہیں۔

اب تو بس یہ یاد ہے کہ میرے پاس کیا نہیں اور دوسرے کا پاس کیا ہے۔ سوچا جائے تو ہم نے اپنی خوشی کو اس لیے بھی ناراض کر رکھا ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والے موازنے کو ہم نے اپنے اندر جگہ دے رکھی ہے ہم اکثر و بیشتر کسی نہ کسی سے اپنا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں ، وہ ہمارا دوست بھی ہوسکتا ہے اور رشتہ دار بھی۔وہ ہمارے دفتر یا کاروبار کا ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور پڑوسی بھی۔ وہ ہمارا کلاس فیلو بھی ہوسکتا ہے اور ساتھی ٹیچر بھی۔ہم اس کی کسی خُوبی ، کامیابی ، ترقی ، آمدنی ، سواری اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر خود کو اس کے ساتھ لاشعوری طور پر موازنہ کرتے ہیں کہ جیسا اس کے پاس ہے ویسا میرے پاس ہے یا نہیں اور یہی سوچ ہمارے دل ودماغ میں اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے ہم اس بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

یا پھر کچھ پانے کی چاہ کچھ پا جانے سے اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو دو کناروں میں تقسیم کر رکھا ایک کنارے پر کھڑے بس ہم اپنی محرومیاں محسوس کرتے ہیں اور دوسرے کنارے پر کیا اسے جاننے کا تجسس ہے۔

زندگی اگر پھولوں کی سیج نہیں تو یہ کانٹوں کا بستر بھی نہیں لیکن افسوس کہ ہم انسانوں نے ہی اسے وقت کے ساتھ ساتھ بہت مشکل اور گھمبیر مسائل کا شکار بنا دیا ہے۔ ۔یہ ہماری ہی سوچ کے تقاضے ہیں کہ اب زندگی مہک کے بنا پھول کی عکاسی کرتی ہے۔ ہماری لا محدود خواہشات نے اس سے اس کی رونق اور دلکشی کو چھین لیا ہے۔

میں جانتی ہوں یہ کہنا تو آسان ہے کہ جو آپ کے پاس ہے اس میں خوشی تلاش کرو اور جو نہیں ہے اس کی فکر چھوڑ دو کیونکہ مسلسل رفتار بھی زندگی کا ہی ایک پہلو ہے پر کیا ہی اچھا ہو کہ کبھی اس رفتار کو کم کر کے یا کبھی بس رک کر وہاں کا مزہ لیا جائے جہاں تک ہم پہنچے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہیں پہنچنے یا کچھ پا لینے کی چاہ آنکھوں کو موجودہ نظروں سے بھی محروم کر دے۔ تو کچھ وقت کے لیے روکو ضرور، جو ہے اس کو دیکھو سمجھو اور شکر کرو۔

اگر ہمارے دامن میں کئی محرومیاں ،دکھ اور پریشانیاں ہیں تو بہت سی نعمتیں اور رحمتیں بھی موجود ہیں جیسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ گلاس پورا بھرا ہوا نہیں، تو مکمل خالی بھی نہیں ہے۔