دو صدی سے جاری لاپتا افراد کا سلسلہ جتنا طویل ہے، اتنا ہی گھمبیر ہو چکا ہے۔ ایک دن میں ایک ہی خاندان کے پانچ لوگ لاپتا ہوتے ہیں تو کبھی اتنے ہی لوگوں کی میتیں کسی کے گھر میں کہرام مچا دیتی ہیں۔
سوگواری کو احتجاج کی شکل میں ختم کرنے کے لئے اور حصولِ انصاف کے راہ میں چلنے والے بھی لاپتا، بات کرنے والے بھی لاپتا اور احتجاج کی عکس بندی کرنے والا بھی لاپتہ۔ اگر کسی کی قسمت میں لفظِ لاپتا بھی نہ ہو تو لفظِ ہراسگی اور دھمکی ضرور اپنی حصہ ڈالتی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے حصہ میں جاری غیر آئینی اثرورسوخ اور انسانی حقوق پر بات کرنے والے ملک کی سب سے بڑی نمائندگی کا مرکز ایوان زیریں میں نمائندہ لاپتا افراد کو افغانستان کی سرزمین پر موجودگی کے الزامات لگاتے اور کابل اور ہلمند میں اس طرح ٹریک کرتے تھے۔
عمران خان کے دور حکومت میں ان سے لاپتا افراد کے لواحقین ملے اور اپنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم کی جانب سے لاپتا افراد کو منظرِ عام پر لانے کی بات ہوئی اور یقینِ دہانیاں کرائی گئیں۔ لواحقین کو صرف ان ہی تسلیوں کیساتھ واپس بھیج دیا گیا۔
پچیس سال تک پاکستان کے ایوانوں میں بلوچستان کے اِن گنت سنگین مسائل کو اپنی بنچ پر کھڑے ہو کر بیان کرنے والے، اپنے مطالبات کے لیے حکومتوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لانے والے جب اتحادی سے حزبِ اختلاف میں آگئے ایسی ہی ان کے مطالبات بھی یوٹرن لے گئے۔
اختر جان مینگل کے چھ نکات دو ہزار اٹھارہ سے بائیس تک چار بن گئے۔ بی این پی مینگل کو وزارتیں عطا ہو گئیں اور لاپتا افراد کا مسئلہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کرسی کے نیچے دب گیا۔ اب بلوچستان کے قوم پرست سیاستدانوں کے نئے مطالبات سے خوشحال بلوچستان کے مستقبل کا پلان ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف بلوچستان کی سرزمین پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں لاپتا افراد کے بازیابی کے لیے بلوچ عوام کے ساتھ مل کر آواز اٹھاؤں گا۔ میں بطور وزیراعظم "طاقتور لوگوں" کے ساتھ اس معاملے کو زیرِ بحث لاؤں گا۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے محض باتیں کیسے ان لاپتا افراد کو واپس لا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھانے والوں کی آوازیں چودہ سالوں سے بلوچستان کے ہر گلی، کراچی کے پریس کلب،لاہور کے لبرٹی چوک اور اسلام آباد کے طاقتور ترین ہاؤس کے درو دیوار میں گونج رہی ہے۔
جناب شہباز آخر میں اپنے بلوچی ٹویٹ میں فرما رہے تھے کہ بلوچستان کی ترقی اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک لوگوں کے مسائل حل کے میز پر نہ آجائیں۔ کوئی بلوچ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ دو ہزار بائیس ماڈل پرانے اور آزاد پاکستان،جمہوری اور آئینی اختیارات کا مکمل ڈھانچہ کونسی "طاقتور لوگ" کی گرفت میں ہے جس سے ملک کا "چیف ایگزیکٹو" مشورے اور بات کرنے کی خواہش ظاہر کرے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔