کیا افغانستان اب بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے لیئے جنت بننے جا رہا ہے؟

کیا افغانستان اب بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے لیئے جنت بننے جا رہا ہے؟
افغانستان میں انفراسٹرکچر اور سماجی زندگی نے امریکہ کے بیس سالہ دور میں ترقی کی لیکن امریکہ افغانستان میں ریاستی اور سیاسی ادارے مظبوط نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ فعال سیاسی جماعتیں نہ بنا سکا۔ امریکہ نے طالبان کو کافی حد تک کمزور اور غیر متعلقہ کردیا۔ طالبان کو کمزور کرنے کے بعد میز پر بٹھا کر ان سے اپنی شرائط معاہدے کی خفیہ شقوں سے منواکر افغانستان ان کے حوالے کردیا۔ طالبان کے پاکستان اور افغان دھڑے کافی کمزور ہوچکے ہیں اور ان کے جنگجو داعش میں شامل ہونے لگے تھے۔ اب طالبان اور  کرزئی ، گل بدین ، عبداللہ عبداللہ میں بہت کم فرق رہ گیا تھا۔ امریکہ یہ سمجھ بیٹھا کہ طالبان اچھے بچے بن گئے۔ پاکستان یہ سمجھا کہ طالبان ہماری مٹھی میں ہیں۔ اور یہ ہماری کامیابی یے۔ جبکہ چین، روس اور ایران بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ وہ بھی افغانستان میں اپنے ملکی مفاد کا تحفظ کریں گے۔ لیکن کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا کہ اب افغانستان بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے لئے دوبارہ جنت بن جائے گا۔ کیونکہ طالبان کی اتنی صلاحیت اور قوت نہیں کہ وہ داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں کو قابو کرسکے۔  ایسا لگتا ہے کہ اب افغانستان میں موجود تنظیموں کے ساتھ دنیا کی دیگر چھوٹی موٹی تنظیمیں بھی افغانستان کا رخ کریں گی۔ اور یہ ساری تنظیمیں آپس میں اتحاد بنا کر اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گی۔ جس کا اثر سب سے زیادہ پاکستان، ایران اور  چین پر ہوگا۔

مذہبی ا نتہا پسندی ایک سیلابی ریلے کی مانند ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں ایک جگہ بند باندھ کر اس کو روک سکوں گا۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ پانی کا یہ سیلابی ریلہ دوسری طرف اور دوسرے راستے سے نکلے گا۔ اگر سیلابی ریلے کو روکنا ہے تو ان بنیادوں اور ماخذوں تک جانا ہوگا جہاں سے یہ ریلہ پھوٹ کے نکلتا ہے۔