'آڈیو لیکس کے بعد عمران خان کے اقتدار میں واپسی کے امکان اور بھی کم ہو گئے ہیں'

'آڈیو لیکس کے بعد عمران خان کے اقتدار میں واپسی کے امکان اور بھی کم ہو گئے ہیں'
عمران خان کو سمجھنا چاہئیے کہ فوری الیکشن ہونا ان حالات میں ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ عمران خان کو پرویز الہٰی کی بات کو اس طرح رد نہیں کرنا چاہئیے تھا اور باجوہ صاحب پر اتنے حملے نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ اگر عمران خان اداروں کے بارے میں بات کرنا بند نہیں کریں گے تو ان کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ ان کو نظر آ رہا ہے کہ الیکشن جلدی نہیں ہوں گے اوراگر ہو بھی گئے تو ان کا حکومت میں آنا مشکل ہے۔ آڈیو لیکس کے آنے کے بعد تو ان کے امکان اور بھی کم ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا تھا صحافی نادیہ نقی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نادیہ نقی نے کہا کہ ایک خاص ادارے کی طرف سے آڈیو لیکس سامنے آ رہی ہیں، اس پر تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے خاموشی ہے۔ آڈیو لیکس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اجتماعی مؤقف اختیار کرنا چاہئیے۔ یہ معاملہ باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان نے آج صحافیوں سے ملاقات میں کہا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے پی ڈی ایم کی بات اہم نہیں ہے، ان کے پیچھے جو 'لوگ' ہیں ان کی اجازت درکار ہے۔ ٹیکنوکریٹس کو لانے کی بات بھی ہو رہی ہے، اگر کوئی پولیٹیکل انجینیئرنگ ہو گی تو اس کے ملک کے لیے بھیانک نتائج ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ سے میری مراد صرف آرمی چیف ہیں اور ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سول بالادستی ایک دن میں قائم نہیں ہو سکتی، جنرل باجوہ سے میرے اچھے تعلقات تھے، میری بات مانتے تھے، ہمارے مابین کرپٹ عناصر کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے۔ یہ کہنا ہے رپورٹر شہباز میاں کا۔

شہباز میاں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ادارہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ادارہ پاک فوج ہے۔ عمران خان سول بالادستی کی بات بالکل نہیں کرتے۔ ان کو ضرور اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ حد عبور کر رہے تھے اس لیے انہوں نے اب نام لینا بند کر دیے ہیں۔ جب پی ٹی آئی کے پرندے اڑنا شروع ہوں گے تو سب سے پہلے جانے والے فواد چودھری ہوں گے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ٹرمپ کے دور میں ہمارے بہت اچھے اور مثالی تعلقات تھے۔

شہباز میاں نے کہا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا شوشہ ہر کچھ عرصے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ غیر سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ افراد اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اتنے تجربے کے باوجود حالات ٹھیک نہیں کر پا رہیں تو ٹیکنوکریٹ کیسے کر لیں گے۔ اتحادی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اب وہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور ملک کو ان مسائل سے نکالیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے، ٹیکنوکریٹس ملک کو ان مسائل سے نہیں نکال سکتے۔

اعزاز سید نے کہا کہ 26 ستمبر کے بعد عمران خان کی گفتگو میں ایک عنصر مستقل ہے اور وہ ان کی پریشانی اور اضطراب ہے۔ ان کی گفتگو میں اب کچھ نام بھی غائب ہونے لگے ہیں۔ اگر عمران خان یہ کہتے کہ ادارے سیاست سے الگ ہو گئے ہیں اور ہم سب مل کر آئینی حساب سے ملک کو چلاتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہوتی، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ادارے ان کا ساتھ دیں۔ عمران خان اب مفاہمت کی طرف رواں دواں ہیں۔ اب وہ پنجاب اور کے پی کے کی حکومت کو ختم کرنے کی بات بھی نہیں کرتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آڈیو لیکس کے بعد ان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ایک طوفان چھپا پے، اور اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کیا تو اور خطرناک چیزیں سامنے آ سکتی ہیں۔

اعزاز سید نے کہا کہ شہباز حکومت اب اگلا بجٹ دینے سے بھی ڈر رہی ہے۔ وہ آئی ایم ایف کی شرائط سے بھی خوف زدہ ہیں۔ حکومت اب عمران خان کے نااہل ہونے کا انتظار کرے گی تا کہ ان کو کوئی واپسی کا محفوظ راستہ مل جائے۔ ابھی حکومت کے پاس 7 ماہ رہ گئے ہیں، بجٹ بھی دینا ہے اور عوام کو ریلیف بھی دینا ہے کیونکہ الیکشن میں عوام کے پاس بھی جانا ہوگا۔ نواز شریف چاہ رہے تھے کہ وہ تب آئیں جب ملک کے معاشی حالات بہتر ہوں گے مگر ابھی ایسی کوئی صورت حال نظر نہیں آ رہی، جس دن ان کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا وہ اس وقت آئیں گے۔

پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔