عورت مارچ 2020 رکوانے کے 101 ٹوٹکے

عورت مارچ 2020 رکوانے کے 101 ٹوٹکے
جنگ شروع ہو چکی ہے۔ کوئی تحریر کے ذریعے، کوئی تقریر، کچھ تصویر کشی اور کچھ تو عدالتی درخواستوں کے ذریعے اپنی آرا کو معاشرے کا prevailing truth بنانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ کئی عورت ذات کے سڑکوں پر نکلنے کو بے حیائی اور مذہب دشمنی سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور کچھ تو اسے غیر ملکی agents کی کارستانی۔

معاشرے کے کئی حلقوں میں کھلبلی سی ہے، کئی لوگوں کی عورت مارچ کو رکوانے کی خواہش رگوں میں خون سے زیادہ گرم ہے۔ ان سب کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے مصنف کے پاس زبیدہ آپا سے بہتر ٹوٹکے ہیں۔ اگر زبیدہ آپا زندہ ہوتیں تو عورت مارچ رکوانے کے ٹوٹکے سن کر ازسرے نو سر تسلیم خم کر لیتیں۔

ٹوٹکا نمبر 1:

بازاروں، چوراہوں، گلیوں، محلوں میں عورت ذات کو دیکھتے ہی گھورنا/ تاڑنا/ جھانکنا بند کر دیا جائے، کیونکہ عورت ذات تمہارے گھورنے کا سامان تھی، نہ ہے۔ عوامی مقامات پر ہر جنس کا مساوی حق ہے اور یہ رویہ اس حق کو مجروح کرتا ہے۔

ٹوٹکا نمبر 2:

خواتین کو جینے کا پورا حق اور برابر حق دیا جائے۔ اکیلا دیکھ کر جنسی ہراساں نہ کیا جائے، اس کو تعلیم مکمل کرنے کا حق دیا جائے۔ اس کو گھر کی نوکرانی نہیں بلکہ اپنے جیسا ایک فرد اور ساتھی سمجھا جائے۔

ٹوٹکا نمبر 3:

عورت کو غیرت، کمتر، شہوانی خواہشات کی کنجی نہ سمجھا جائے۔

ٹوٹکا نمبر 4:

خواتین، خواجہ سرا سمیت ہر جنس کیلئے تعلیم سے صحت تک معاشرتی اور اداراجاتی سطح پر مساوی مواقعے فراہم کیے جائیں۔

ٹوٹکا نمبر 5:

عورتوں کو کمزور سمجھ کر ان کے خلاف زیادتی کرنے والوں کے خلاف کھڑا ہوا جائے، خاموشی کے بتوں کو توڑا جائے، مظالم پر تماش بینی بند کی جائے۔

ٹوٹکوں کی پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، لیکن ان 5 ٹوٹکوں پر ہی عمل کر لیا جائے تو کسی عورت مارچ کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ خواتین '' عورت مارچ'' نکالنے کے بجائے خوش و خرم تحفظ اور برابری کے احساس کے ساتھ جیے گی۔ یہ ٹوٹکے صرف عورت مارچ رکوانے کیلئے کارآمد ثابت نہیں ہوں گے بلکہ معاشرے کی وہ اقدار جن کا خیالی نقشہ ہمارے ذہنوں میں ہے ان کو بھی حقیقت کے رنگ ملیں گے۔

عورت مارچ بھی فرشتوں کی کارستانی نہیں، نقائص کی بھرمار ادھر بھی ہے۔ کسی بھی سیاسی تحریک میں پیغام رسانی سب سے اہم ہوتی ہے، اور عورت مارچ کی پیغام رسانی کا اہم ترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ افسوس در افسوس کہ اس وقت پاکستان میں ایک بھی آن لائن فیمنسٹ پیج اردو سمیت کسی بھی مقامی زبان میں نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 95 فیصد کے قریب لوگ اردو سمیت مقامی زبانے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ تنقید اور سخت ردعمل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے پیغام پہنچ ہی نہیں پا رہا۔