تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ ہمارے ملک کا بے چارہ تنخواہ دار طقبہ تو پہلے ہی ٹیکس دے رہا ہے لیکن جو لوگ اس کی ادائیگی ہی نہیں کر رہے ان کو اس نیٹ ورک میں لانے کی جرات کی جائے۔
گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام عدل کا حال یہ ہے کہ اسلام آباد کی گرین بیلٹ کے اوپر ججوں کی کالونی بن چکی ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے کابینہ میں بڑا شور اٹھایا گیا کہ ججوں کو پلاٹ دینے کا سسٹم غلط ہے۔ اس کو ختم کیا جائے۔
فواد چودھری نے بتایا کہ اس کے بعد وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ججوں کو واقعی اس طرح سے پلاٹ نہیں دینے چاہیں۔ لیکن سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے اس فیصلے پر عملدرآمد ہی نہیں ہونے دیا اور صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے روز ججوں کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اگر میں نے ان کے پلاٹ روک لئے تو میرا ان کے سامنے پیش ہونا محال ہو جائے گا۔
سابق وزیر نے بتایا کہ اس وقت سارے جج صاحبان نے خود ہی آرڈر کرکے اپنے آپ کو فُل پنشن دلوائی ہوئی ہے۔ اس وقت ملک میں سب سے زیادہ پنشن لینے والے حضرات ہی جج صاحبان ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی پنشن کے اوپر ٹیکس ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں جو بیوروکریٹ یا جج ریٹائر ہوتا ہے، وہ اپنی تنخواہ سے زیادہ پنشن لیتا ہے کیونکہ اس کی پنشن کے اوپر ٹیکس ہی نہیں ہے۔ جب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بیٹھ کر طاقتور حلقوں کی بات کرتے ہیں تو اس بارے میں کچھ کرنے کی ہمت کریں۔
انہوں نے کہا کہ اب مجھ سے یقیناً یہ سوال ہوگا کہ ہماری حکومت نے ایسا اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟ تو ہم نے بھی ایسا اس لئے نہیں کیا کیونکہ ہم بھی ڈرتے تھے اور ڈر ڈر کر ہی چلتے رہے۔