دبئی میں نگران وزیر اعظم کے لئے محسن بیگ، نجم سیٹھی، گوہر اعجاز کے ناموں پر غور: جاوید چوہدری

دبئی میں نگران وزیر اعظم کے لئے محسن بیگ، نجم سیٹھی، گوہر اعجاز کے ناموں پر غور: جاوید چوہدری
دبئی میں بڑی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور پاکستان کے متعدد سیاستدان اس وقت دبئی میں موجود ہیں اور نگران حکومت اور اس کے اہم عہدوں کے لیے کھچڑی پک رہی ہے۔

کالم نگار اور اینکر جاوید چوہدری نے اپنے وی-لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اس وقت بڑی سیاسی کھچڑی پکائی جارہی ہے۔ دبئی ملاقاتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، پارٹی کے کئی اعلیٰ عہدیداران بھی شریک ہیں اور دونوں اطراف سے ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر بات چیت میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عون چوہدری بھی استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر ترین کے پیغام کے ساتھ دبئی میں موجود ہیں اور ن لیگ کے قائد اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین  سے ملاقات کریں گے۔

جاویدچوہدری نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے لیے جو نام تجویز کیے گئے ہیں ان میں پہلا نام نجم سیٹھی کا ہے۔مسلم لیگ ن نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور حال ہی میں بورڈ کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ نجم سیٹھی کا نام پیش کیا ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن نے 2013 کے انتخابات سے قبل پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نجم سیٹھی کا نام تجویز کیا تھا۔

دوسرے امیدوار گوہر اعجاز ہیں جن کا نام پیپلز پارٹی کی جانب سے تجویز کیا گیا تاہم ان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ گوہر اعجاز نے آصف زرداری کو مشورہ دیا تھا کہ اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کچھ رعایتیں دی جائیں، خاص طور پر توانائی کے حوالے سے، تو وہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 15 ارب ڈالر تک بڑھا سکتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے محسن بیگ کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ق ان کے حق میں ہیں۔

نواز شریف کی واپسی؟

چوہدری نے کہا کہ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ میاں نواز شریف موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ستمبر میں پاکستان آئیں گے تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ وہ جولائی میں پاکستان واپس آ کر پہلے اپنے کیسز نمٹائیں گے اور پھر اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں پاکستان کے سبھی دوست ممالک، خاص طور پر عرب ممالک، نواز شریف کی وطن واپسی کے خواہشمند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میاں صاحب واپس آکر الیکشن لڑیں اور چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں۔ اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر پاکستان کی معاشی مدد کریں گے، سرمایہ کاری کریں گے اور کاروباری تعاون کے مواقع فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ برادر ملک چین بھی چاہتا ہے کہ نوازشریف واپس آجائیں۔

کالم نگار نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو قرضہ پروگرام دوبارہ شروع کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

آئی ایم ایف کو وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے تین تحفظات تھے جس کے بنیاد پر آئی ایم ایف ان سے ڈیل کرنے پر رضامند نہیں تھا۔ ایک جب وہ ڈیل کے لیے گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ یہ باتیں مانتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ گُڈ بائے۔ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔ دوسرا جب انہوں نے بیان دیا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہتھیانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ تیسرا ان کا حال ہی میں جاری کیا گیا بیان کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ سیاست کھیل رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جیوپولیٹکس ہو رہی ہے اور آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے تو پھر بات کریں گے۔ ان تمام پر آئی ایم کو تحفظات تھے اور جب آئی ایم ایف معاہدے کے لیے رضامند نہ ہوا تو وزیر اعظم نے اسحاق ڈار کو سائیڈ پر کر کے آئی ایم ایف کو منانے کا بیڑا اٹھا لیا جس میں لگتا ہے کہ وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اس صورت میں آئی ایم ایف کی سپورٹ بھی نواز شریف کو حاصل ہو جائے گی۔

انتخابات نومبر میں ہوں گے۔ موجودہ حکومت ٹینور مکمل ہونے سے کچھ وقت پہلے اسمبلیاں تحلیل کرے گی اور پھر 90 دن کے وقت میں انتخابات کروائے جائیں گے جو کہ نومبر میں ہونے کا قوی امکان ہے۔

سیٹ ایڈجسٹمنٹ

کالم نگار نے کہا کہ دبئی ملاقاتوں کا ایک اور بڑا ایجنڈاسیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ بھی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے سامنے پانچ نشستوں پر الیکشن نہ لڑنے کی شرط رکھی ہے۔ یہ نشستیں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی ہیں۔ دیگر میں لالہ موسیٰ میں قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن اور رحیم یار خان میں مخدوم احمد خان شامل ہیں۔ جبکہ آئی پی پی کے عون چوہدری بھی جنوبی پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خواہاں ہیں۔

سندھ اور خیبرپختونخوا  کی حکومتوں کے لیے بھی سیٹلمنٹ کی جارہی ہے جو جلد مظر عام پر آجائے گی۔

انتخابات کے بعد چارٹر آف اکانومی بھی تیار  کیا جائے گا جس پر تمام پارٹیز سے متفقہ طور پر دستخط کروائے جائیں گے اور اس کو 20 سال کے لیے نافذ کیا جائے گا۔