اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی سزاؤں کا فیصلہ آئندہ ہفتے میں آ جائے گا اور اسلام آباد ہائی کورٹ بنچ کی آبزرویشنز سے نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف دونوں ریفرنسز میں سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی جائیں گی۔ یہ کہنا ہے صحافی اسد علی طور کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد علی طور نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیلوں پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی جس کے لیے نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔ نواز شریف کے ساتھ مسلم لیگ ن کے متعدد ورکرز، وکلا اور صحافی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال پوچھا کہ جو ریفرنس نواز شریف کے خلاف دائر کیے گئے، کیا وہ تحقیقات کے بعد دائر کیے گئے تھے یا سپریم کورٹ کی ہدایت پر؟ اس کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کے 6 ہفتوں میں نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
صحافی نے کہا کہ عام طور پر جب کسی پر کوئی الزام لگتا ہے تو پہلے تحقیقات کی جاتی ہیں۔ واضح کیا جاتا ہے کہ فلاں معاملے میں اتنی کرپشن ہوئی ہے اور تحقیقات میں ملزم فلاں سوالات کا جواب نہیں دے سکا لہٰذا اس شخص کے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔ پاناما لیکس کی سماعت کرنے والا اس وقت کا 5 رکنی بنچ جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ چلا رہے تھے۔ ریفرنس صرف دائر کروائے گئے اور کوئی تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ، چارج صحیح فریم ہوا، نا نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں اور نا ہی سزا سنانے والے جج کو پتا تھا کہ وہ کس جرم کی سزا سنانے جا رہے ہیں۔ یعنی اس ٹرائل کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
صحافی نے کہا کہ جسٹس عامر فاروق کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ایک شخص کے آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو وہ معاملہ تو مبینہ طور پر کرپشن کا ہی ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کی یہ تین آبزرویشنز کیس کی آئندہ سمت متعین کرتی نظر آ رہی ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ احتساب کے نام پر جو کچھ بھی ہوا، سب جھوٹا تھا۔ جج بشیر کے چیمبر سے متعدد بار آئی ایس آئی کے کرنل کو نکلتے دیکھا گیا تھا جس کا ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے۔ تب جسٹس اعجاز الاحسن کو نگران جج مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور انہیں کوئی پروا ہی نہیں تھی۔ جنرل فیض حمید، جو اس وقت آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے، جسٹس شوکت عزیر صدیقی کے گھر پہنچ گئے تھے۔ جنرل فیض حمید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے کہا تھا کہ آپ نے ہمارے 2 سال کی محنت کو برباد نہیں کرنا اور نواز شریف اور مریم نواز کی سزاؤں کو معطل کر کے انہیں ضمانت نہیں دینی۔ پاناما بنچ کی کارروائی 2 سال میں مکمل ہوئی تھی۔
صحافی نے کہا کہ جسٹس عظمت سعید شیخ فون کر کر کے کہتے تھے کہ فلاں فلاں افسر دیں۔ بعدازاں جے آئی ٹی میں جو افسران آئے، تمام چور تھے۔ انہوں نے مل کر ملک کے مینڈیٹ اور جمہوریت کا خون کیا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھنسانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی وہ انہیں نہ پھنسا پائے۔ انہیں نواز شریف کے اثاثوں اور پاناما میں سے کچھ نہیں ملا اور وہ نکال کر لائے اقامہ۔ پھر بھی آئین اور قانون میں جگہ نہیں بنی تو 'بلیک لا ڈکشنری' سے نکالا۔ اس تمام کارروائی سے واضح نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ سارا کا سارا من گھڑت اور جھوٹا تھا۔
صحافی کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے نواز شریف کو ڈیل کے تحت اس سارے معاملے سے نکالا جا رہا ہے۔ کیا گارنٹی ہے کہ نواز شریف کو جو سپیس آج دی جا رہی ہے اور عمران خان کی سپیس ختم کی جا رہی ہے، تو کل کلاں دوبارہ اس کا ریورس نہیں ہو گا؟ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایسے کھیلتی ہے کہ کبھی ایک سیاست دان کو گندا کرتی ہے اور دوسرے کو آسمان کی بلندیوں پر چڑھا دیتی ہے تو کبھی اس کا الٹ شروع ہو جاتا ہے۔
صحافی نے نواز شریف کی سزائیں کالعدم ہونے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیس جس رفتار سے چل رہا ہے اس کو ایک ہی منٹ میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ صرف نیب کے پراسیکیوٹر سے پوچھا جائے کہ آپ اس فیصلے کا دفاع کرنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی سزا برقرار رکھنی چاہئیے یا نہیں؟ اس پر نیب وکیل کے جواب سے کیس ختم ہو جائے گا۔ احد چیمہ کے کیس جیسی رپورٹ پیش کر دی جائے گی اور کہہ دیا جائے گا کہ اثاثے آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ بنچ کے لیے سزائیں کالعدم قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ غالب امکان ہے کہ نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزاؤں کا فیصلہ آئندہ ہفتے آ جائے گا جس میں ان کے خلاف دونوں ریفرنسز میں سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی جائیں گی۔
صحافی نے کہا کہ اسی دوران الیکشن شیڈول بھی آ جائے گا اور ن لیگ کی جانب سے جو جواز پیش کیا جا رہا تھا کہ نواز شریف اپنی سزاؤں کے معطل ہونے کے بعد ہی باقاعدہ انتخابی مہم میں حصہ لیں گے، وہ بھی دور ہو جائے گا۔