عہد حاضر سیاسی اور سماجی بغاوتوں پر مبنی ہے۔ لاطینی امریکہ کے ملک چلی سے لے کر ایتھوپیا اور ہانک کانگ سے لے کر عرب و ایشیا میں بہت سی ظاہری اور ان دیکھی سماجی و سیاسی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ ایسے میں، ایک ایسی دنیا جہاں ٹیکنالوجی کے انقلاب کے باعث فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیاں، پاکستان یا دیگر ممالک پر اثر انداز نہ ہونے پائیں۔
سال 2010 میں عرب ممالک میں برپا ہونے والی متعدد بغاوتیں جنہیں عرب سپرنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے، وہ مسلمان ممالک کے مقتدر حلقوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھیں۔ عرب ممالک اور افریقہ کے ممالک جہاں بادشاہتیں قائم تھیں، وہاں کی عوام میں دھیرے دھیرے جمہوریت اور سماجی انصاف کیلئے جدوجہد کی خواہشات بڑھنے لگیں۔ انکل سام اور اس کے اتحادیوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر میں حسنی مبارک اور لیبیا میں کرنل قذافی کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ اور سعودی عرب نے مل کر مہارت کے ساتھ عوام میں مطلق العنایت کے خلاف بڑھتے ہوئے اشتعال کو اپنے حق میں استعال کیا اور اپنے مخالفین کا تختہ الٹنے کیلئے ان بغاوتوں کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
اس عرب اسپرنگ کی بغاوتوں سے متاثر ہو کر جنرل پرویز مشرف کے دست خاص شجاع پاشا نے پاکستان میں بھی "تبدیلی" کے نام پر عوام میں جڑیں رکھنی والی سیاسی قیادت کے خاتمے کا ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ سال 2013 میں عمران خان کو مینار پاکستان کے جلسے سے ایک مسیحا کے طور پر لانچ کیا گیا اور مین اسٹریم میڈیا اور انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کا عمل شروع ہو گیا۔ سال 2013 کے انتخابات میں عمران خان کو متبادل کے روپ میں پیش کر کے انہیں اہوزیشن کا کردار دلوایا گیا اور پھر جتھوں اور دھرنوں کے ذریعے ایک منتخب حکومت پر جس طریقے سے چڑھائی کی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
دوسری جانب نواز شریف نے اس سازش کو بھانپتے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں دو اہم کام کیے۔ پہلا کام نواز شریف نے یہ کیا کہ اس نے سارا وقت اور توانائی ملک میں انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے لگانے اور عوام کو سبسیڈیز کے ذریعے ریلیف دینے میں صرف کر دیا۔ نواز شریف بھانپ چکا تھا کہ کہ مقتدر حلقے اسے آنے والے انتخابات میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اس لیے اس نے عوام کو ریلیف دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
دوسری جانب ترک صدر سے نواز شریف کی قربت اور بڑھی اور نواز شریف نے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو دیکھتے ہوئے یہ بھانپ لیا کہ اسے اب پاکستان میں مقتدر قوتوں کی حاکمیت کو ختم کرنے کیلئے ایک اعصاب شکن معرکہ لڑنا ہو گا۔
ثاقب نثار کی سربراہی میں مقتدر قوتوں نے جیسے اعلی عدالتوں کو استعمال کر کے پہلے نواز شریف کو ایک کمزور عدالتی فیصلے سے سیاست کے میدان سے ناک آوٹ کیا اور پھر میڈیا کے ذریعے جس طرح نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نواز کی کردار کشی کی گئی وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔
2018 میں سیاسی عمل کو ہائی جیک کر کے انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے عمران خان کو اقتدار میں لانے والی قوتیں جب فتح کے جشن میں مصروف تھیں۔ اس وقت نواز شریف اور اس کی بیٹی جیل کی کال کوٹھریوں کے پیچھے بیٹھے پاکستان کی ایک نئی تاریخ مرتب کرنے میں مصروف تھے۔ ملک میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ ایک سیاستدان اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر کسی بھی ڈیل سے انکار کرتے ہوئے وطن واپس گرفتاری دینے آیا۔
پنجاب کی دھرتی بلھے شاہ اور ہیر کی سرزمیں ہے، یہ جب کسی سے محبت کرتی ہے تو غیر مشروط اور مسلسل کرتی ہے۔ اس دھرتی نے ملک کے تمام صوبوں کے برعکس اسٹیبلیشمنٹ کو بے پناہ محبت دی۔ لیکن، جب پنجاب نے نواز شریف اور مریم نواز کو خود شوق سے مقتل گاہ میں جاتے دیکھا تو اس کی محبت نواز شریف اور اس کی بیٹی کے ساتھ مزید بڑھی اور اس نے جولائی 2018 کے عام انتخابات میں تمام تر رکاوٹوں اور دھاندلی کے باوجود ایک کڑوڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کو دے کر اس محبت کا آغاز کر دیا۔ جس روز وتز من التشا وتزل من التشا کی ٹویٹ کر کے دشمن کو ووٹ کے ذریعے شکست دینے کا اعلان کیا گیا، وہ ساعتیں پنجاب کی عوام کی اکثریت اور مقتدر حلقوں کے درمیان ایک ایسی خلیج قائم کر گئیں جسے اب ختم کرنا خود نواز شریف کے بس میں بھی نہیں ہے۔ باقی کا کام عمران خان کی نااہل اور انتقام پر مبنی حکومتی پالیسی نے پورا کر دیا۔
نواز شریف کی بیٹی نے جس جرات سے اپنے باپ کے سویلین حاکمیت کے بیانیے کو آگے بڑھایا، اس نے خود مقتدر قوتوں کو بھی پریشان کر دیا۔ جیل میں قید نواز شریف کا سیاسی قد کاٹھ ہر صورت بڑا ہونا تھا کہ قیدو بند کی صعوبتیں سیاستدانوں کا قد کاٹھ بڑھانے کے کام آیا کرتی ہیں۔ اس پر غضب یہ کہ نیب کی تحویل میں جس بہیمانہ طریقے سے نواز شریف کو اپنے معالج کے بار بار اصرار پر صحت کی سہولیات فراہم نہ کی گئیں اور آج نوازشریف لاہور کے سروسز ہسپتال میں لیٹا زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کرائے کے ٹی وی اینکزر کی ڈیل ڈیل کی دیومالائی کہانیوں اور ایک بدتہذیب اور اخلاقیات سے عاری سیاسی گنی پگز کی نسل کا اس بیماری کو ڈھونگ قرار دینا، اس سب کے باوجود پنجاب کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اب عمران خان اور اس کے پشت پناہوں کے خلاف نفرت کی ایک آگ سینے میں لگائے بیٹھا ہے۔ جب فصل نفرت کی کاشت کی جائے تو پھر کبھی بھی گلاب کاشت نہیں ہوا کرتے۔
صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف کو سمجھایا بجھایا جا رہا ہے کہ کسی بھی طرح کچھ بھی کر کے نواز شریف اور اس کی بیٹی کو بیرون ملک روانہ کریں اور بدلے میں نومبر گزرنے کے بعد قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لا کر عمران خان کو چلتا کر دیں۔ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی سماعت میں تیزی بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔
دوسری جانب نواز شریف اس کھیل کو خوب جانتا اور سمجھتا ہے اس لیے شدید علالت کے باوجود وہ بیرون ملک جانے یا کسی بھی ڈیل کرنے سے انکاری ہے۔ نواز شریف کی بیٹی کے احتساب عدالت میں اپنے والد کی علالت پر بہتے آنسو پنجاب کی ہیر اور بلھے شاہ کی دھرتی کو جھنجھوڑ کر رکھ چکے ہیں۔ اگر اس وقت تک شہباز شریف نے اپنی جماعت کو روک کر نہ رکھا ہوتا تو اس وقت پنجاب کے عوام کا غصہ سڑکوں اور گلیوں میں ہانگ کانگ اور چلی جیسے مظاہروں کی صورت میں واضح نظر آرہا ہوتا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ بھی عنقریب پنجاب میں داخل ہو جائیگا۔ مولانا ایک زیرک سیاستدان ہیں اور ہوا کے رخ اور اشاروں کنایوں کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ مولانا کی آزادی مارچ کا تعلق جمہوری بیانیے کی بالادستی سے زیادہ مقتدر قوتوں کے اس ناراض حصے کی شہ پر ہے جو موجودہ حالات اور اپنے آپ کو ادھر ادھر کیے جانے پر برہم ہیں۔ لیکن، ایک ایسے وقت میں جب پنجاب اپنے واحد مقبول ترین عوامی رہنما کو ہسپتال میں موت سے نبردآزما اور اس کی بیٹی کے آنسوں کو دیکھ کر بپھرا پڑا ہے۔ مولانا کے مارچ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ نواز شریف سے بہتر کون یہ جان سکتا ہے کہ فضل الرحمن کا یہ مارچ سٹیٹس کو میں تبدیلی تو نہیں لائے گا لیکن اسے مزید کمزور کر جائے گا۔ مقتدر قوتوں کو اب بیک فٹ پر جا کر ان سیاسی قوتوں کو جگہ دینی پڑے گی جنہیں ختم کر کے یہ قوتیں ون پارٹی سسٹم کے سہارے ملک میں بالواسطہ حکمرانی کرنا چاہتی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے باہر جانے کے بجائے اس اہم دوراہے پر ملک میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ یہ مقتدر قوتوں کے لیے انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ اگر نواز شریف کو سرکاری ہسپتال میں یا اگر وہ ممکنہ طور پر شریف میڈیکل کمپلیکس میں منتقل ہو جاتے ہیں، وہاں پر بھی کچھ ہو گیا تو عمران خان کے ساتھ ساتھ اس کا الزام مقتدر حلقوں پر بھی آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب رفتہ رفتہ تمام سیاسی اسیروں کو ہسپتال منتقل کر کے ریلیف دیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف ملک سے باہر چلا جائے۔
یہ ایک اور سنگین غلطی ہے جو مقتدر قوتیں پھر سے دہرانا چاہتی ہیں۔ اگر زور زبردستی اور من مانی کر کے عمران خان کو مسلط کر کے بھی مصنوعی سیاسی نظام نہیں چلا تو یہ مستقبل میں بھی نہیں چلے گا۔ بھلے ہی عمران خان کا چہرہ تبدیل کر کے شہباز یا کسی اور کٹھ پتلی کو تخت پر بٹھا دیا جائے۔
جن قوتوں نے پاکستان کو مصر اور لیبیا سمجھ کر مصنوعی تبدیلی لانے کا خواب دیکھا تھا وہ یہ بھول گئی تھیں کہ نواز شریف نے 2014 کے دھرنے کے بعد ہی اس صورتحال سے نمبٹنے کی حکمت عملی ترتیب دے دی تھی۔ مریم نواز کی صورت میں اسے اپنی جماعت میں سے ہی وہ توانا آواز مل گئی جس کو اب دبانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ نواز شریف ڈیل کے تحت باہر نہیں جائے گا یہ بات سیاسی رموز اور اس طاقت کی شطرنج کو سمجھنے والا ہر ذی شعور جانتا ہے اگر بالفرض اسے باہر جانا بھی پڑا تو وہ علاج کروا کر لوٹ آئے گا کیونکہ آنے والا وقت اس کی سیاسی جانشین مریم کا ہے۔ لیکن، اس بات کے بے حد کم امکانات ہیں کہ نواز شریف ایک ایسے مرحلے میں بیرون ملک جائیں گے جب انہوں نے مقتدر قوتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اس ملک کے کئی نامور تجزیہ نگار اور خود نواز شریف کے بھائی اور ان کے ہم خیال نواز لیگ کے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ مقتدر قوتیں ناقابل تسخیر ہیں لیکن راقم کا روز اول سے ماننا تھا کہ ناقابل تسخیر اور ہمیشہ حاکمیت صرف رب کی ذات کی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی ہر طاقت کو زوال ہے اور ہر کوشش کرنے والے کو عروج بھی ہے۔
نواز شریف تو مائنس نہ ہوا لیکن ملکی سیاست کا محور آج بھی اس کے اور اس کی بیٹی مریم کے گرد گھومتا ہے۔ نفرتوں کے سوداگروں کو نوید ہو کہ جن نفرتوں کی آگ میں وہ تبدیلی کے سرابوں کے تعاقب میں ایک بدتہذیب نسل اور سیاست کو جنم دے کر نواز شریف اور اس کی بیٹی کو بھسم کرنا چاہتے تھے، اس آگ نے خود ان کے اپنے گھر کا رخ کر لیا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ ملک کو مزید انتشار سے بچانے کیلئے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور ملک میں انتخابی اصلاحات کے بعد فوری طور پر آزاد اور منصفانہ انتخابات کروا کر عوام کو اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیں۔
دوسری صورت میں یہ بساط اب مقتدر قوتوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے کیونکہ نہ تو نواز شریف کوئی ڈیل کرے گا اور اگر اسے علاج کی خاطر جانا بھی پڑا تو وہ صحت مند ہو کر لوٹ آئے گا۔
نہ ہی فضل الرحمن کے مارچ کے کسی بھی نتیجے سے اس بساط پر کوئی خاص فرق پڑے گا۔ اگر پھر بھی کسی صورت مقتدر قوتیں شہباز اور زرداری کو ساتھ ملا کر کچھ وقت حاصل کر لیتی ہیں اور عمران خان کی قربانی دے کر نواز شرہف اور مریم کو جلاوطنی پر مجبور کر دیتی ییں۔ تو پھر شاید مسلم لیگ نواز تو یہ جنگ کبھی نہیں جیتنے پائے گی لیکن نواز شریف کا تشکیل دیا گیا جمہوری بالادستی کا بیانیہ اور مریم کی بے خوف اور نڈر سیاست کے باعث پنجاب میں جمہوری بالادستی کی خواہش کا نظریہ کبھی نہیں مرنے پائے گا۔
نظریات شخصیات نہیں ہوتے جنہیں موت آ جائے یا جنہیں دبا دیا جائے یہ پروان چڑھ جائیں تو پھر اپنی منزل حاصل کر کے ہی دم لیتے ہیں۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔