افغانستان کا مستقبل کیسا ہو گا؟

ان دنوں افغان طالبان، امریکی سرکار اور کابل حکومت کے درمیان افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں قطر میں افغان طالبان اور افغان سرکار کے وفد کے درمیان مذاکرات نہ ہو سکے کیوں کہ افغان طالبان نے اتنے بڑے وفد، جس میں عورتیں بھی شامل تھیں، سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ۔ ۔ مذاکراتی عمل میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد بہت متحرک ہیں۔ انہوں نے طالبان کی جانب سے مذاکرات نہ کرنے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اب کابل میں گرینڈ جرگہ ہو رہا ہے جس کا گلبدین اور چند دوسرے رہنماء بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ افعانستان میں امن قائم کرنے کے لئے فریقین دنیا کے مختلف ممالک میں خاموشی سے مذاکرات کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ مذاکرات کھل عام اور اعلانیہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے مذاکرات ہوئے تھے مگر دوسرے دور سے پہلے ہی ملا عمر کے مرنے کی خبر سامنے آگئی اور مری مذاکرات نہ ہوسکے۔ ملا عمر کے مرنے کی خبر ایسے وقت میں افشا کرنا، اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر کچھ عرصہ سے یہ مذاکرات دوبارہ ہو رہے ہیں اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد ان میں نہایت اہم اور متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔



ان مذاکرات کا انجام کیا ہو گا؟ ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا مگر میری پریشانی اس بات پر ہے کہ امن مذاکرات کے کامیاب ہونے کے بعد افغانستان میں کس قسم کا نظام اور کس کی حکومت قائم ہوگی؟

افغانستان میں بادشاہت تھی اور ظاہر شاہ وہاں کا بادشاہ تھا۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے، یہ  بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ افغانستان کی سلطنت (ملک) بہت پرانی نہیں ہے۔ ایک زمانے میں، یہ خطہ جسے ہم افغانستان کہتے ہیں، ہندوستان کی سلطنت کا حصہ تھا، مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر یہیں دفن ہیں۔

انگریزوں نے جب ہندوستان فتح کر لیا تو انہیں روس کی فکر ہوئی کہ وہ کہیں شمال سے ہندوستان پر حملہ نہ کردے، اس لئے پہلے تو انگریزوں نے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی مگر جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس کے ساتھ کچھ  مزید معاہدے کیے جن میں ڈیورنڈ لائن کا ایک سو سال کا معاہدہ بھی شامل ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پشاور ایک زمانے میں افغان حکومت کا ’’سمر کیپیٹل ‘‘ ہوا کرتا تھا جسے پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اسی طرح بلوچستان کا پشتون علاقہ بھی افغانستان کا حصہ ہوتا تھا جسے ایک معاہدے کے تحت انگریزوں نے بلوچستان میں شامل کیا۔



جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں قبائلی نظام قائم تھا، کابل میں براجمان بادشاہ کی حکومت کابل اور چند شہروں تک تھی اور وہ مختلف قبائلی سرداروں کے ذریعے پورے ملک پر حکومت کرتا تھا۔

افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ لبرل اور روشن خیال تھا۔ اس نے کابل میں مغربی تعلیم اور روشن خیالی کو فروغ دیا۔ ایک زمانے میں لوگ جشن کابل میں شریک ہونے کے لیے پاکستان سے بھی جاتے تھے، اس کے علاوہ لوگ ہندوستانی فلمیں دیکھنے اور مغربی اشیاء کی خریداری کے لئے بھی کابل جاتے تھے۔ کابل جانا بہت ہی آسان تھا۔ لوگوں کو پشاور سے پاس مل جاتا تھا اور وہ پاکستان کی سرکاری ٹرانسپورٹ سے کابل چلے جاتے تھے اور چند دنوں بعد واپس آجاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے مقابلے میں اتحادی افواج نے عام شہریوں کا زیادہ قتل عام کیا، اقوام متحدہ

ڈیورنڈ لائن کے ارد گرد رہنے والے قبائل کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف ایک ہی قبائل رہتے تھے اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں ( پاکستان نے چوں کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر لیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ آزادی انہیں حاصل ہو گی یا نہیں)۔

آزادی سے پہلے افغانستان کے ہندوستان سے بہت گہرے اور قریبی تعلقات تھے۔ انگریز اس بات سے فکر مند تھا کہ کہیں کابل روس، خاص کر سوویت روس کے زیر اثر نہ آ جائے۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد


جب پاکستان بنا تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کی مگر بعد میں تعلقات بہتر ہو گئے، کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں افغانستان اور پاکستان کی کنفیڈریشن بنانے کی تجویز بھی زیرغور آئی تھی۔

افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ ان کے اپنے ہی کزن سردار دائود نے اس وقت الٹ دیا جب وہ یورپ کے دورے پر تھے۔ 1979 میں کمیونسٹوں نے سردار دائود کا تختہ الٹ دیا اور افغانستان میں انقلاب برپا کردیا ۔ نور محمد ترکئی کو حکومت کا سربراہ بنا دیا گیا جنہوں نے کابل میں کمیونسٹوں کے منشور کے مطابق معاشی، معاشرتی اور سیاسی اصلاحات نافد کیں۔ جنرل حفیظ اللہ امین، نور محمد ترکئی کا تختہ الٹ کر حکمران بن گئے مگر پھر ان کا تختہ الٹ کر ببرک کامل حکومت میں آ گئے جن کی مدد کے لئے روسی فوجیں افغانستان داخل ہو گئیں۔

یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان نے ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ظاہر شاہ مخالف مذہبی رہنمائوں کی درپردہ سرپرستی شروع کر دی تھی اور ان میں سے چند کو پاکستان لایا  گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ طالبان مذاکرات میں حقیقی کامیابی کا دعویٰ

پاکستان ٹوٹنے کے بعد اسلام آباد میں، پانچویں صوبے اور تذویراتی گہرائی پرغور شروع ہو گیا تھا۔

امرہکہ نے جب سوویت یونین کا افغانستان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو اس منصوبے میں خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی۔ کئی لاکھ افعان پناہ گزین یہاں آکر آباد ہو گئے۔ پشاور سوویت یونین اور افغان مخالف قوتوں کا مرکز بن گیا۔

https://youtu.be/kJ2FVEdAm7M

میں نے جس تناظر سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ہے، وہ ماضی میں ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھ  کر کیا ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ افغانستان کے ماہرین اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں۔

ماضی میں امریکہ اور اس کے اتحادی بشمول پاکستان نے ناصرف اسلامی طاقتوں کو کابل حکومت کے خلاف تیار کیا بلکہ قبائلی نظام کی پشت پناہی بھی کی۔



ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ آیا جب کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی اور انہوں نے اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کر دیا جسے صرف پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا (یہ الگ بحث ہے کہ اگر یہ حکومت قائم رہتی تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوتے)۔

اسامہ بن لادن جو کہ سی آئی اے کے لیے کام کر چکا تھا۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کرنے والے مذہبی اور قبائلی رہنمائوں کو صدر ریگن نے امریکی آزادی کے رہنمائوں سے تشبیہ دی تھی۔  اس دوران اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی کابل آگئے۔  بہرحال امریکہ نے نو گیارہ کے بعد افغانستان سے ملا عمر کی خلافت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اوراس پر دوبارہ حملہ کردیا۔

اسامہ بن لادن اور طالبان قیادت نے پاکستان میں پناہ لی۔ میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے قتل اور کوئٹہ شوریٰ کی بحث میں نہیں پڑتا۔  مجھے جو بات سمجھ نہیں آرہی، وہ یہ ہے کہ آج کابل میں ایک طرح کی جمہوریت ہے جس میں خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کھل کر کام کر رہی ہیں، یہ نظام امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نافذ کیا ہوا ہے۔  طالبان اپنا مذہبی ایجنڈا رکھتے ہیں۔  یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہوگا کہ آخر طالبان اور موجودہ افغان حکومت کس قسم کا نظام حکومت اور معاشرہ قائم کرنے پر سمجھوتہ کریں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ کابل کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے بلکہ طالبان آئے دن افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حملے کرتے رہتے ہیں، گو وہ امریکی فوجوں کی موجودگی میں کابل فتح نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: دوحہ مذاکرات کے فیصلہ کن ہونے کی امید، طالبان کے وفد میں خواتین بھی شامل ہوں گی

ماضی کو اگر سامنے رکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے بعد ہونے والے جنیوا معاہدہ کے بعد بھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا بلکہ بہت خون خرابہ ہوا جو اب تک جاری ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا جائے گا یا کوئی درمیانی راستہ ڈھونڈے گا اور وہ راستہ کیا ہو گا؟

امریکہ، روس اور چین مل کر افغانستان میں امن قائم کرنے پر مشاورت کر رہے ہیں۔

طالبان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیں نکلنی چاہئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان بزور طاقت ان غیر ملکی فوجوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبورکر سکتے ہیں اور افغانستان میں اپنی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

چین نے افغانستان کی ساری معدنیات کے ذخائر خرید لئے ہیں۔ اس کے سنکیانگ صوبہ میں مسلم مزاحمت جاری ہے۔ کیا ایسے حالات میں وہ اپنے ہمسایہ میں ایک مذہبی ریاست بننے دے گا؟



افغانستان کے ارد گرد کی مسلم ریاستوں میں بھی مذہبی انتہاپسند سرگرم ہیں۔ کیا روس افغانستان میں ایک مذہبی ریاست قائم ہونے دے گا؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان، جس نے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے تقریباً اسی ہزار لوگوں کی قربانی دی ہے اور ابھی بھی یہ مہم جاری ہے، کیا وہ اپنے پڑوس میں ایک مذہبی ریاست کے قیام کی اجازت دے گا؟

اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اور پاکستان، افغانستان کے حریف فریقوں کے درمیان کس قسم کا امن معاہدہ کرواتے ہیں اور اس کے بعد افغانستان میں امن کی ضمانت کون دے گا؟

ایک راستہ تو یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوجیں واپس بلا لے اور افغان حکومت اور عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ لیکن ایسا کرنا شاید اس کے لئے ممکن نہیں گو امریکہ کا ایسا ہی ریکارڈ ہے۔ میں بہت ہی تجسس کے ساتھ اس سارے عمل کا مطالعہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں!