اہلکاروں نے آئین، قانون اور حقوق کو روند کر بالاچ بلوچ کا قتل کیا

بالاچ کے گھر والے خوشی منا رہے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا لاپتہ بیٹا منظرعام پر آ گیا ہے۔ اسے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور سی ٹی ڈی پولیس نے سیشن عدالت سے ریمانڈ بھی لے لیا۔ بہت جلد یہ خوشی ہمیشہ کے لیے ماتم میں بدل گئی جب خاندان والوں کو بتایا گیا کہ بالاچ بلوچ سی ٹی ڈی کی کارروائی میں شہید ہو گئے ہیں۔

اہلکاروں نے آئین، قانون اور حقوق کو روند کر بالاچ بلوچ کا قتل کیا

ایسا صرف پاکستان جیسے انسانی حقوق کے علمبردار ممالک میں مظلوم بلوچوں کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ جبری طور پر گمشدہ کرنے کے بعد قانون کی پاسداری کرنے والے ملزم شہری کو اپنے بنائے گئے قانون و عدالتوں کے سامنے پیش کر کے ریمانڈ لینے کے باوجود، انہیں پراسرار طور پر یا جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت و آئین قتل کر دیتے ہیں اور ایک کمزور مؤقف کے ساتھ یہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ملزم تفتیش کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کی نشاندہی کرنے پر (جو ریاست کو مطلوب تھے) آپریشن کے دوران ان کی فائرنگ سے جان سے گئے۔

ایسا ایک واقعہ دو ماہ قبل پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان کے شہر تربت میں پیش آیا جس کے بعد بلوچستان میں جبری گمشدگی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف ختم نہ ہونے والی ایک منظم تحریک ابھری اور اسی تحریک کے تحت مارچ بلوچستان و پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا اسلام آباد تک جا پہنچا۔ اسی احتجاج نما تحریک کو بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا، منظم اور پرامن عوامی احتجاج سمجھا جا رہا ہے جس کی قیادت اس وقت خواتین، بچے اور بچیاں کرتے آ رہے ہیں۔

بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت و آئین قتل کے بعد ابھرنے والے احتجاجی مظاہرے دنیا کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بلوچ نسل کشی کے بارے آگاہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں (جس کے لیے ہم گذشتہ 70 سالوں سے زائد عرصے سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں)۔

پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا، تربت میں کشیدہ کاری سے وابستہ 22 سالہ بالاچ بلوچ کو 29 اکتوبر کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور 21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 'یہ دعوی ہے ان کے خاندان کا'۔

بالاچ کے گھر والے خوشی منا رہے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا لاپتہ بیٹا منظرعام پر آ گیا ہے۔ اسے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور سی ٹی ڈی پولیس نے سیشن عدالت سے ریمانڈ بھی لے لیا۔ بہت جلد یہ خوشی ہمیشہ کے لیے ماتم میں بدل گئی جب خاندان والوں کو بتایا گیا کہ بالاچ بلوچ سی ٹی ڈی کی کارروائی میں شہید ہو گئے ہیں۔

اگر بالاچ واقعے کے سیاسی و عدالتی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو اس کیس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست بلوچستان میں کس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑارہی ہے اور اپنے ماورائے قانون عمل کی پردہ پوشی کرتی آ رہی ہے۔ اس کی مثال حالیہ بالاچ مولا بخش کے کیس سے ملتی ہے کہ کس طرح قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بالاچ کے کیس میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ، سی ٹی ڈی اور پولیس آفیشل کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوران تفتیش مسلح تنظیموں سے وابستگی کا انکشاف کرتے ہوئے چند وارداتوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اگر اس طرح ہے تو اس حوالے سے قانون شہادت QSO واضح ہے۔ پولیس یا (law enforcement agencies, LEAs) کے سامنے انکشاف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس کا طریقہ کار قانون شہادت QSO میں واضح طور پر موجود ہے۔ انہیں متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے۔ تاوقتیکہ وہ متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے خود اپنے جرم کا اعتراف نہ کرے، پولیس کے سامنے کے اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اگر ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا جبکہ پولیس کو یہ اچھی طرح علم ہے کہ اس انکشاف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ کسی پر دباؤ ڈال کر ان سے من پسند بیانات ریکارڈ نہیں کروا سکتے اور نا ہی اس سے آپ کسی کو جعلی مقابلے میں مار سکتے ہیں۔ اس کا بھی ایک قانونی طریقہ کار (qso164 اور ccrp364) میں موجود ہے۔ باوجود اس کے گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس، پولیس یا سی ٹی ڈی کے اس مؤقف کے پیچھے کھڑے ہیں جس سے اس نوعیت کے مسئلے مزید پیچیدہ ہوتے ہیں۔

پولیس یا سی ٹی ڈی کا دوسرا دعویٰ بھی حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملزم کے انکشاف کی بنیاد پر ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے یا جائے وقوعہ پر جا رہے تھے تو اس کا بھی ایک قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ اس کا قانونی پروسیس یہ ہے کہ متعلقہ مجسٹریٹ سے سرچ وارنٹ لیناضروی ہے جس جگہ یا گھر پر ریڈ کرنا ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کسی بھی جگہ اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ کسی کے گھر میں جا رہے تھے یا پرائیویٹ جگہ پہ۔ پولیس رول یا ضابطہ فوجداری اس حوالے سے واضح ہے جبکہ یہ قانونی لوازمات بھی پورے نہیں کیے گئے۔

176, INQUEST, Crpc 

176 ضابطہ فوجداری کے تحت اگر دوران ریمانڈ یا پولیس کی حراست میں ملزم کی ٹاچر یا اٹیک یا کسی بھی طبعی وجوہات کی بنا پر موت واقع ہوتی ہے تو متعلقہ مجسٹریٹ کو (Inquestment) رپورٹ بنانے کے لیے اطلاع دی جاتی ہے۔ مجسٹریٹ Cause of death کی انکوائری کرتا ہے اور رپورٹ بناتا ہے جبکہ بالاچ کے کیس میں ان سب قانونی پہلوؤں کو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کتنی دیدہ دلیری سے نظرانداز کرتے آ رہے ہیں۔ اس کی مثال شاید کسی اور ملک میں نہ ملتی ہو۔ پولیس یا سی ٹی ڈی انسداد دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں، کیا انہیں ان قانونی پہلوؤں کے بارے میں علم نہیں ہے؟ اگر علم ہے تو کیوں وہ جان بوجھ کر حقائق سامنے نہیں لاتے؟ انہیں اپنے ماورائے قانون ہر عمل کا اچھی طرح سے علم ہے۔ قانون کو مکمل نظرانداز کرنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ خود قانون و آئین کی پاسداری میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ یہ قانون و آئین کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ اتنے قانونی پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنے سے بہتر ہے کہ کرائم کو روکنے کے لیے قانونی طریقہ کار کو اختیار کریں۔ اس طرح کے رویوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون و آئینی طریقہ کار کو اپنانے کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 10 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 61 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ انہیں کس سیکشن اور جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں یہ بھی حق دیا جائے کہ وہ اپنے پسند کے وکیل تک رسائی حاصل کر سکیں۔

دوسری اہم بات یہ کہ اگر کسی بھی شہری کا قتل ہوتا ہے، چاہے اچھا ہے یا برا، قانون یہی کہتا ہے کہ قابل دست اندازی جرم ہوتا ہے، اس کی رپورٹ درج ہونی چاہیے، تفتیش آپ ہی کو کرنا ہے، نظام آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جب رشتہ دار اس سلسلے (ایف آئی آر) کے لیے آتے ہیں تو ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوتا۔

درخواست فائل کی جاتی ہے۔ سیشن کورٹ ڈویژن کا سربراہ ہے، اس کے حکم کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ اپنی 'انا' کی خاطر ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے، توہین عدالت لگتی ہے اور محکمانہ کارروائی شروع ہوتی ہے تب جا کر ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔

ان تمام آئینی و قانونی پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی عوامی تحریک کی شکل میں سامنے آیا۔ اگر مظاہرین و متاثرین کو بروقت سن لیا جاتا تو شاید میت کی بروقت تدفین ہو جاتی اور احتجاج وہیں پہ ختم ہو جاتا مگر اس کا ردعمل ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ تربت سے شروع ہونے والی تحریک نے اسلام آباد کا رخ کیا اور یوں ظلم کی یہ داستان گھر گھر پہنچ گئی۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔