وزیراعظم عمران خان رواں ہفتے جمعہ کے روز اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان رواں ماہ 31 مئی کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 14 ویں سربراہی اجلاس میں شریک ہوں گے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سربراہی اجلاس او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنے خیالات کے اظہار اور اسلامی ملکوں کے مفاد پر مبنی سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر غور کا ایک اہم موقع فراہم کرنے کے تناظر میں ایک موثر ترین پلیٹ فارم ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، وزیراعظم دیگر معاملات کے علاوہ مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کے ناگزیر تقاضوں، مسئلہ کشمیر، اسلام مخالف بڑھتے ہوئے رجحانات، تعلیم اور سائنسی ترقی کی طرح کے اہم امور پر بھی توجہ مرکوز کریں گے۔

دفتر خارجہ کے مطابق، 2019 میں او آئی سی کے قیام کو 50 برس ہو جائیں گے۔ 1969 میں قائم ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے بعد دوسری سب سے بڑی کثیرالملکی عالمی تنظیم ہے جس کا مجموعی جی ڈی پی 190.4 کھرب ہے۔

پاکستان نے بانی رکن کی حیثیت کے طور پر مسلمانوں کے درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور تنظیم کو فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یاد رہے کہ سربراہی اجلاس سے قبل سعودی عرب میں آج او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں شرکت کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سعودی عرب میں موجود ہیں۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز نے او آئی سی کے 14 ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے 57 ممالک کو مدعو کیا ہے۔ مکۃ المکرمہ میں ہونے والے اس اجلاس میں میں پاکستانی وفد کی سربراہی وزیراعظم عمران خان کریں گے۔



دو روزہ سربراہی اجلاس میں مسلم ملکوں میں دو طرفہ اتحاد مضبوط بنانے، مسلم امہ کو درپیش مسائل اور خلیج عرب میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال پر بات کی جائے گی۔

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب روانگی سے قبل اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، اجلاس کے دوران ایران اور خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر بات کی جائے گی جب کہ پاکستان کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔

ایران کی جانب سے اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ اس سربراہی اجلاس میں شریک ہو رہا ہے یا نہیں، تاہم اگر ایران اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک نہیں ہوتا تو سعودی عرب کو ممکنہ طور پر اپنے روایتی حریف کے خلاف مسلم ملکوں کا اتحاد قائم کرنے کا موقع مل جائے گا۔

واضح رہے کہ اس وقت ایران اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ کشیدگی عروج پر ہے اور امریکہ کی جانب سے خلیج فارس میں ایک ایئرکرافٹ کیریئر اور بمبار طیارے کسی بھی وقت کارروائی کے لیے تیار ہیں جب کہ ایران پر عائد پابندیوں کو بحال کرنے کے علاوہ خلیج فارس میں مزید 15 سو اہل کار بھی تعینات کیے جا چکے ہیں۔

دوسری جانب خطے میں پیدا ہونے والی اس کشیدہ صورت حال کے باوجود سعودی عرب رواں ہفتے عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاسوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔