Get Alerts

'نیوٹرل' ہونے کا اعلان سر آنکھوں پر مگر چند سوالوں کے جواب دیتے جائیں

'نیوٹرل' ہونے کا اعلان سر آنکھوں پر مگر چند سوالوں کے جواب دیتے جائیں
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ نوجوانی تک اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شعور بیدار ہوتا گیا اور ہم سہانے خوابوں سے بیدار ہونے لگے۔

ہم نے 1965 کی جنگ کے دوران رضاکار کے فرائض بھی انجام دیے اور جنگ کے اختتام پر اپنے سپہ سالار اعلیٰ کے اس فرمان کو سن کر خوشی سے جھوم اٹھے کہ ہمارے شیر جوانوں نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرنے والے بزدل دشمن کو وہ سبق سکھایا کہ آئندہ کبھی اس قسم کی حرکت کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈرے گا۔

ابھی 65 کی جنگ کے سحر سے بیدار بھی نہ ہو پائے تھے کہ 71 آ گیا اور اسی بزدل دشمن نے ایک بار پھر ہمیں للکارا۔ ہم حیران تھے کہ کیسا بے شرم دشمن ہے کہ چند سال قبل دی گئی ذلت آمیز شکست کو اتنی جلد فراموش کر بیٹھا۔ اس بات کا البتہ ہمیں اطمینان تھا کہ ہمارے شیر جوان اس بار بھی اپنی تاریخی روایات کو زندہ و تابندہ کریں گے اور دشمن کو تہس نہس کر کے دم لیں گے۔ اس جنگ کے دوران روز یہ سن کر دل خوشی سے جھوم اٹھتا تھا کہ ہمارے جوان مورچے مضبوط کر رہے ہیں لیکن پھر 16 دسمبر آ گیا اور ہم خواب سے بیدار ہوئے۔ اسلامی تاریخ کی اس بدترین شکست سے کچھ سبق سیکھنے کے بجائے ہم نے اپنی روایات کے عین مطابق نئی سازشوں کے جال بننے شروع کر دیے۔

ایسے عالم میں کہ وطن عزیز اپنی پیدائش کے صرف 24 سال بعد دولخت ہو گیا تو عوامی غیظ و غضب کو دیکھتے ہوئے سازشی عناصر نے باگ اقتدار ایک سویلین شخص کے حوالے کر دی۔ اقتدار جس کے حوالے کیا گیا وہ بھی عجب شخص تھا کہ دن رات ایک کر کے نہ صرف ایک شکست خوردہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا بلکہ اس مملکت بے آئین کو ایک ایسا آئین دیا جو آج بھی رائج ہے۔

آج ہمارے محافظ سینہ چوڑا کر کے کہتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والوں سے ہم نے کیا سلوک کیا۔ 'وہ' کہتے ہیں کہ ہمارا نام نہ لیں لیکن اگر ان کا نام نہ لیں تو پاکستان کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوتی۔ چلیے ہم نام نہیں لیتے، آپ بتائیں بھٹو کو پھانسی کس کے حکم پر دی گئی؟ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کو کس نے رسوا کیا؟ تمام خطرات سے بے پروا ہو کر ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو کس نے عبرت کا نشان بنایا؟ بینظیر بھٹو کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ کون ہے جو حکومتیں بناتا اور ڈھاتا رہا؟ پانامہ کیس میں اپنے من پسند افراد کی جے آئی ٹی کس نے بنوائی؟ تین بار کے منتخب وزیر اعظم کو کس نے نا اہل کروایا؟ 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس نے کس کے حکم پر کام کرنا چھوڑ دیا تھا؟ کس نے ارکان کی منڈی لگا کر 'ہائی برڈ ریجیم' قائم کی؟ وہ کون تھا جس نے غدار پرویز مشرف کو ملک سے فرار کروایا؟ جسٹس ارشد ملک نے اپنے بیان میں کس جانب اشارہ کیا تھا؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو کس نے برطرف کروایا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کس نے سازش کی؟

قوم ان سارے سوالوں کے جواب چاہتی ہے اور جب تک ان سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے کسی کے صرف اتنا کہہ دینے سے قوم مطمئن نہیں ہونے والی کہ اب ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر اب ہر ادارے نے آئین کے تحت صرف اپنے کام سے کام رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ خوش آئند ہے لیکن اس کے لیے ایک 'ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیئشن' بنانا پڑے گا اور وہاں تمام اداروں کے سرکردہ افراد بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور مستقبل میں آئین کی روح کے مطابق چلنے کا فیصلہ کریں۔ ہم قطعاً یہ نہیں کہہ رہے کہ کسی کو سزا دی جائے لیکن اتنا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے تاکہ عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد بحال ہو سکے۔

غالب کہتے ہیں؛

؎ رکھیو غالب! مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سِوا ہوتا ہے

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔