معروف کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ آج مریم نواز سیاسی طور پر آزاد ہو گئی ہیں۔ ان کے سامنے سے بڑی رکاوٹ ہٹ گئی ہے لیکن اگلے الیکشن کے لئے ابھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں بنا، یہ لیول تب ہوگا جب عمران خان نا اہل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ٹارگٹ کرکے احتساب کریں گے تو چاہے جتنا بھی وہ انصاف کے قریب ہو وہ انتقام ہی لگے گا۔ یہ کیس انتقام کی زندہ مثال ہے۔ انتقام چاہے ریاستی تھا، عدالتی تھا یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تھا۔ جس طرح بھٹو کا کیس بھی ٹارگٹیڈ احتساب کا کیس تھا، اسی طرح جس طرح نواز شریف کو آپ نے نکالا یہ بھی ٹارگٹیڈ احتساب ہے جسے انتقام کہا جائے گا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن بننا تھا تو پانامہ میں شامل سب لوگوں کے بارے میں بنتا، جے آئی ٹی بھی سب کے لئے بنتی اور سب کو سزا ہوتی تو اسے کوئی بھی غلط نہ کہتا۔ انصاف آج ہوا ہے اس سے پہلے اس کیس میں جو کچھ ہوتا رہا وہ انتقام تھا۔ ججوں سے زیادہ قصور پراسیکیوٹر کا ہوتا ہے جس نے مقدمہ بنایا ہوتا ہے۔ پراسیکیوٹر نے کیوں لکھا کہ ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں اور انہیں سزا دے دینی چاہئیے؟ نواز شریف کی واپسی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سیاسی ٹائمنگ دیکھ کے واپس آئیں گے۔ سیاسی طور پر اگر وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر آنا ہے تو شاید پہلے پنجاب میں حکومت بدلیں گے۔ عمران خان کی نااہلی کا انتظار کریں گے یا نومبر کا انتظار کریں گے۔
پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف قانون دان عبدالمعز جعفری نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں انصاف ہونا ہی تھا اور آج آخرکار ہو گیا مگر جتنی دیر سے یہ ہوا ہے اب انصاف نہیں لگ رہا۔ جن کے چار سال ضائع ہو گئے ان کی جواب دہی کون کرے گا۔ جس طرح عمران خان خان ہاتھ دھو کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑے ہیں، اس طرح سے عدلیہ کے پیچھے آج تک کوئی نہیں پڑا۔ اندر سے ہی بار کونسلز اور باڈیز اٹھیں گی کیونکہ یہ ایک نیچرل پروسیس ہے۔ آج چیف جسٹس اپنی مرضی کے جج تعینات نہیں کر سکتے۔ بار کونسلز ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ سائیڈ لینے کے نتائج اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے فیصلے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نواز شریف کو بھی لازمی طور پر اسی طرح کا فیصلہ ملے گا۔ نواز شریف آئیں گے تو جیل جائیں گے اور اپیل کریں گے۔ اس کے بعد عدالت کو اپنی بیٹی کا کیس ریفرنس کے طور پر بتائیں گے۔ ضروری نہیں کہ انہیں بھی اسی قسم کا فیصلہ ملے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی جج ہفتے اتوار کو نہیں بیٹھتے، کبھی نہیں کہتے کہ ہم ٹرائل کورٹ میں بیٹھیں گے۔ اگر آپ سارا قصور پراسیکیوشن کا بنائیں گے تو میرا خیال ہے یہ درست نہیں ہے۔ ہمارے ہاں خود جج اشارہ دے کر کیس بنواتے ہیں کہ اسے میرے پاس لے آئیں۔ یہاں ساری ذمہ داری پراسیکیوشن پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ پاکستان میں احتساب کا یہ حال ہے کہ اگلا جج (ن) لیگ لگا کے اپنا انتقام لے گی۔ (ن) لیگ نے خود بھی رول آف لا کی بات کم ہی کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس کی قانونی طور پہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سے عمران خان کی مقبولیت پر بھی خاص اثر نہیں پڑتا۔ عمران خان کے بیانئے کو اس طرح کی باتوں سے پنکچر نہیں لگائے جا سکتے۔ ان کے فالوورز نے کھیلنے والی بات کو نظرانداز کر دیا اور ٹوئٹر پر یہ کہ رہے ہیں کہ دیکھیں عمران خان کی سائفر والی بات سچ ثابت ہو گئی۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی تھے۔ پروگرام ہر پیر سے جمعہ کی رات کو 9 بج کر 5 منٹ پر نشر کیا جاتا ہے۔