گذشتہ تحریر میں ہم نے طے کیا کہ بہتر تجزیہ سوالات کو جنم دینے والا ہونا چاہئیے اور بر حکمت سوال اور مثبت اختلاف ہی علم کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ گذشتہ تجزیے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ عمران خان جس ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ گیا ہے تو اس ظالمانہ نظام سے خان کی کیا مراد ہے؟
عمران خان کے ظالمانہ نظام کو سمجھنے سے پہلے ہم ہیرو پرستی پر کچھ اور گفتگو کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی خان کو مافوق الفطرت ہیرو سمجھتے ہیں اور ہیرو پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ بناوٹی ہیرو گری میں فقرے بازی، لفاظی اور بیانیہ چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اس جادو نگری کا ایک شہرہ آفاق نعرہ 'ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان' ہے۔ اس فقرے کا اگر آپریشن کیا جائے تو اندر سے یہ انتہائی کھوکھلا نکلتا ہے۔ صرف ڈٹ جانا کوئی بڑائی و نیکی نہیں ہوتی۔ جاہل، ضدی و متکبر لوگ بھی اپنی پوزیشن پر ڈٹ جاتے ہیں تو پھر کیا ڈٹ جانے پر ایسے لوگوں کو ہم ہیرو مان لیں؟
عرض یہ ہے کہ ڈٹ جانے کے پیچھے دو نکات کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔ اول یہ کہ ڈٹ جانے کے پیچھے مقصد کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ اگر مقصد نیک ہے تو کیا ڈٹ جانا موقع و محل کی مناسبت کے لحاظ سے درست ہے؟
ہیرو گری کا ایک اور مشہور فقرہ ہے کہ میں آخری گیند تک کھیلوں گا۔ آخری گیند تک کھیلنا اچھی بات ہے لیکن اگر آخری گیند تک پہنچتے پہنچتے 50 رنز درکار ہوں اور بلے باز شائقین کو غیر حقیقی امید دلاتا رہے کہ آخری گیند پر گیم پلٹ جائے گی تو یہ دھوکا اور جھوٹ ہے۔ اور اگر آخری گیند پر صرف ایک رن درکار ہو تو آخری گیند پر بلے باز آؤٹ بھی ہو سکتا ہے۔ غرض آخری گیند تک کھیلنا جیت کی ضمانت نہیں ہوا کرتا۔
ظالمانہ نظام کی بحث کی طرف واپس آتے ہیں اور ایک اور زاویے سے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر یہ کہو کہ نواز اور زرداری کمپنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں اور ایم ای (ملٹری اسٹیبلشمنٹ) ہی اصل ظالمانہ نظام یا اس نظام کو چلانے والے ہیں۔ ایم ای کے پاس طاقت، اختیارات اور ایک منظم اور مضبوط سٹرکچر ہوتا ہے۔ اگر ظالمانہ نظام کا مطلب ایم ای کا تسلط و جبر ہے اور خان کی حقیقی آزادی کا فلسفہ یہ ہے کہ ایم ای کی غلامی سے پاکستانی عوام کو آزادی دلانی ہے تو پھر جناب اس غلامی سے نکلنے کا فارمولا کیا ہے؟ اگر کہو کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لا کر ایم ای کو راہ راست پر ڈالے گا تو یہ اپنی پسند کا آرمی چیف والا فارمولا ہمیشہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ناکام ثابت ہوا ہے۔
اگر کہو کہ ہم ملک میں خونی انقلاب برپا کر کے ایم ای اور ایم ای کے مہروں کا صفایا کر دیں گے تو یہ خونی انقلاب والا تجربہ بھی دنیا کی تاریخ میں کئی بار کیا جا چکا ہے اور اس کے نتائج ہمشہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ زار روس کے محلات پر قبضہ کرنے کے بعد اور زار روس کے خاندان کو اذیتیں دے کر قتل کرنے کے بعد خونی انقلاب کی شیدائی روسی قوم کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ زار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد خونی انقلاب کے رسیا عوام لینن اور سٹالن کی بربریت انگیز آمریت کا شکار ہو گئے تھے۔
جب بھی کوئی جماعت یا انقلابی لیڈر اپنے ساتھ عوام کو ملا کر خونی انقلاب برپا کرتے ہیں، حکمرانوں کے محلات کو آگ لگا دیتے ہیں، ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ شہر کے چوراہوں پر امرا و اشرافیہ کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں۔ پھر سرشام فتح کا جشن منایا جاتا ہے اور اس شام سرور میں کہیں کوئی ناز و نخروں میں پلنے والی بھوکی شہزادی ایک روٹی کے عوض اپنی عزت بیچنے پر آمادہ ہو جاتی ہے اور کہیں کسی بدنصیب شہزادے کے مُردہ جسم کو گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹا جا رہا ہوتا ہے، یہ کھیل انقلابیوں کو بڑا لذت بخش معلوم ہو رہا ہوتا ہے۔
اس کے بعد انقلابی لیڈر تخت پر براجمان ہوتے ہیں۔ وہ بچے کھچے، چھپے ہوئے سابق حکمرانوں کا بھی خاتمہ کر دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا خاتمہ کرنے کے بعد انقلابی لیڈر دھیرے دھیرے عوام کو بدترین آمریت کے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ جس طرح انہوں نے عوام کو پیچھے لگا کر خونی انقلاب برپا کیا ہے، کل کلاں کوئی دوسرا انقلابی لیڈر اس کا دھڑن تختہ نہ کردے اور اس طرح عوام زار کے روس کو الوداع کہتے ہیں اور لینن و سٹالن کے ظالمانہ نظام کا ایندھن بن جاتے ہیں جہاں اشتراکی نظام کے خلاف نظم پڑھنے پر شاعر اور اس کے پورے خاندان کو غائب کر دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خونی انقلاب پسند عوام کو خونی انقلاب کے کم و بیش اسی قسم کے ثمرات دنیا کے باقی ممالک میں بھی حاصل ہوئے۔
اے سمندر پارپاکستانیو! جب آپ نے پاکستان سے ہجرت کا فیصلہ کیا تو ایران کی طرف رخ کرنا آپ کا انتخاب کیوں نہیں رہا؟ ایران میں تو آپ کے مطلب کا انقلاب آ چکا تھا۔ ایران امریکہ و اسرائیل کا غلام بھی نہیں اور یورپ کے ملکوں اور امریکہ کے مقابلے میں ایران بہت سستا ملک ہے۔ ہم یورپ کے کسی ملک میں زندگی گزارنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے لیکن ایران کے بارے میں ہم سوچ میں پڑ جائیں گے کیوں؟ پاکستانیوں کا پسندیدہ کردار خمینی بھی چوروں کو پھانسیاں دے کر گند صاف کرنے کا فارمولا دے چکا ہے تو پھر کیوں ایران ہمارا انتخاب نہیں ہوتا؟ اس کیوں کا جواب آپ خود تلاش کریں۔
خونی انقلاب شدید جارحیت کی اجتماعی شکل ہوتا ہے اور جارحیت بلآخر جارحیت کو جنم دیتی ہے۔ شدت پسندی بلآخر شدت پسندی کا موجب بنتی ہے۔ 1857 کی بغاوت تاریخ برصغیر کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اب بتاؤ کہ اس بغاوت سے عام لوگوں کا فائدہ ہوا تھا یا نقصان ہوا تھا؟ ہمیں جو آزادی نصیب ہوئی وہ اللہ کے فضل کے بعد قائد اعظم کی اس سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھی جو انہوں نے نظام کے اند رہتے ہوئے کی تھی۔
خونی انقلاب کی مدد سے کبھی انصاف کی تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے کے لیے ارتقا کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہر شے ارتقا کی ملتزم ہے۔
خان کے انقلابی فلسفے کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل مزید سوالات سود مند ہوسکتے ہیں؛
خان اپنے ہر بھاشن میں مہذب مغربی ممالک کی مثالیں تو دیتا ہے مگر کیا خان کسی ایسے مغربی ملک کی مثال دے سکتا ہے جس کا وزیر اعظم یا صدر ملکی معاملات کو چلانے کے لیے اپنی بیوی کے ہاتھوں سرانجام پانے والے عملیات، تعویز گنڈے اور ستاروں کی چال وغیرہ کو مد نظر رکھتا ہو؟
یا پھر انگلینڈ میں کوئی ایسا وزیر اعظم مسلط ہو جائے جو اپنی عملیات کرنے والی بیوی کی ہدایات پر ملکی معاملات کے فیصلے کرے تو آپ ایسے توہم پرست وزیر اعظم کا کیا حشر کریں گے؟
اگر کہو کہ تبدیلی سرکار میں خان کی سہولت کاری کی چھتر چھایہ تلے برپا ہونے والی اربوں کی کرپشن کی کہانیاں پروپگنڈا ہیں، محکمہ عملیات کی کارستانیاں بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں اور تحریک انصاف کے اندر کے لوگوں نے عمران خان، عملیات اور کرپشن کا جو گٹھ جوڑ عیاں کیا ہے وہ سب بھی انہیں پیسے کھلا کر من گھڑت قصے پھیلانے پر راغب کیا گیا ہے اور جو واقعاتی شہادتیں عمران خان کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں وہ سب بھی فریب کاری ہیں؛ اگر آپ کا یہ ماننا ہے تو پھر نواز و زرداری وغیرہ بھی تو اپنے خلاف تمام مقدمات و ثبوتوں کو مخالفین کا پروپیگنڈا کہتے ہیں، کرپشن کسیز کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔
اگر کہو کہ نواز و زرداری کے خلاف تو عدالتوں کے فیصلے بھی آ چکے تھے۔ جناب! آپ یہ نوٹ کر لیں کہ جب عمران خان، بزدار، فرح گوگی اور بشریٰ بی بی وغیرہ کے خلاف بھی عدالتی فیصلے صادر ہوں گے تو آپ نواز و زرداری وغیرہ کی زبان استعمال کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ یہ سب سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔ اب اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر آپ لوگوں نے خان کی تربیت میں رہ کر کون سا نیا نروان و گیان سیکھا ہے؟ پھر چوروں ، ڈاکوؤں اور آپ کے درمیان امتیاز کہاں قائم ہوا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان کو موروثی سیاسی لیڈروں پر اخلاقی برتری حاصل تھی لیکن افسوس خان نے اس اخلاقی برتری کا اپنے ہاتھوں سے کچومر نکال دیا۔ خان نے اس اخلاقی برتری کو موکلوں و عملیات کی جادوگری کے حوالے کر دیا۔ خان نے اس اخلاقی برتری کو احمق، مفاد پرست مشیران کی جوتیوں میں رول دیا۔ خان نے اس اخلاقی برتری کو اپنی ہی انا پرستی و تکبر کے ذریعے ذبح کر دیا۔ عمران خان نے موروثی سیاست کے مد مقابل عملیاتی و موکلاتی سیاست کو جنم دیا اور اپنی اخلاقی برتری کو توہم پرستی کی دنیا میں جھونک دیا۔ ایک سیاست دان جس کے پاس سب کچھ تھا؛ اخلاقی برتری، کرشماتی شخصیت، عالمی و ملکی سطح پر مقبولیت اور عوامی محبت و عقیدت۔ جب خوش قسمت سیاست دان کو اقتدار ملا تو اس نے زمینی حقائق کو لات ماری اور ستاروں کی چال میں الجھ گیا۔ اس نے عقل و حکمت و بصیرت پر قفل چڑھایا اور موکلوں کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔
اگر کہو کہ خان تو صرف الیکشن چاہتا ہے اور الیکشن کی معصومانہ خواہش رکھنا کہاں کی شیطانی ہے؟ خان کی اس معصومانہ خواہش پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک بادشاہ نے ایک دن دربار میں اپنے مشیران و وزرا سے دریافت کیا کہ دنیا کا کٹھن ترین کام کون سا ہے؟ دربار کا سب سے دانا وزیر بولا؛ 'حضور! کسی روتے ہوئے بچے کو چپ کروانا سب سے مشکل کام ہے'۔ بادشاہ نے یہ سنا تو حکم صادر فرمایا کہ اس کے سامنے کوئی روتا ہوا بچہ پیش کیا جائے۔ سپاہی شہر کی ایک گلی سے روتے ہوئے ایک بچے کو اٹھا لائے۔ بادشاہ نے کھیل سے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا؛ 'اے بچے کیوں روتے ہو؟' بچے نے بد ستور روتے ہوئے جواب دیا؛ 'مجھے ہاتھی چاہئیے'۔ دو منٹ کے بعد بچے کو پلاسٹک کا کھلونا ہاتھی دے دیا گیا۔ بچے نے کھلونا ہاتھی کو ایک طرف پھینکا اور رونے لگا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ بچہ روتے ہوئے بولا؛ 'مجھے اصلی والا ہاتھی چاہئیے'۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اصل پاتھی بچے کے لیے دربار میں لایا گیا۔ بچے نے کن انکھیوں سے ہاتھی کی طرف دیکھا اور پھر رونے لگا۔ بادشاہ نے جھنجھلا کر پوچھا؛ 'اب کیا ہوا ہے؟' بچے نے معصومانہ خواہش کا اظہار کیا؛ 'یہ ہاتھی میری جیب میں ڈالو'۔
میرے پیارے سمندر پار پاکستانیو! عمران خان بھی صرف الیکشن نہیں چاہتا تھا، وہ اپنی پسند کی چند بااثر ترین شخصیات کے زیر سایہ ایسا الیکشن چاہتا تھا جس کے نتیجے میں وہ لازماً دوبارہ وزیر اعظم بنتا۔ ہاتھی کو جیب میں ڈالنے کے چکر میں جیب بھی پھٹ گئی اور ہاتھی بھی بد مست ہو گیا۔
آپ اپنے ہیرو سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ خان صاحب! آپ جب اقتدار سے باہر ہوئے تب ایک ایسا وقت آیا کہ پی ٹی آئی 80 فیصد پاکستان پر حکومت کر رہی تھی۔ آپ وزیر اعظم نہ تھے لیکن سارے اچھے پتے آپ کے پاس تھے۔ عوام آپ کی محبت میں دیوانی تھی۔ آپ کی عوامی مقبولیت آسمان چھو رہی تھی۔ موروثی سیاست دانوں کی نسبت آپ کا ووٹ بینک مسلسل بڑھ رہا تھا۔ تمام سگنل آپ کے حق میں جا رہے تھے۔ پھر خان صاحب! ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے رواں سال اکتوبر نومبر سے چند مہینے پہلے الیکشن کروانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا؟
تجزیے کو اس سوال پر ختم کرتے ہیں۔
(ختم شد)