’میرا جسم ، میری مرضی ‘ والیوں کی آتش بجاں تحریک زوروں پر تھی کہ کورونا وائرس نے آکر اس پر پانی پھیر دیا ۔ اجتماعی اور ذاتی معاملات تواوربھی اس کم بخت کورونا نے کافی درہم برہم کیے ہیں ، جن کی طرف اس وقت آپ کا دھیان جارہاہے۔ البتہ ہم تو ذاتی طور پرخواتین کی تحریک اوراس کی رونقیں مانند پڑنے پر دلی رنج اورغم وغصے کی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔ کورونا کے حالات بہتر ہوتے ہی ہم اس تحریک پر تفصیل سے لکھیں گے ۔
آج ہم نے بحثیت دیہاتی یہ بات کرنی ہے کہ پاکستانی میڈیا ہم بارانیوں اورپہاڑیوں کو باور کراتا ہے کہ اہل شہر خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں ۔ خوشی کی بات ہے ۔ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں سے یہی توقع کی جا سکتی ہے مگر غلط فہمی انہیں یہ ہے کہ ہم اجڈ دیہاتی حضرات عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں ۔
ایسا نہیں ہے جناب والا ! یقین فرمائیں کہ ہم آپ کے ہاں مہذب خواتین کی طرف سے کسی معصوم طیبہ پر بہیمانہ تشد د یا کسی زینبب سے درنگی پراتنے ہی رنجیدہ ہوتے ہیں ، جتنے آپ ہم ان گھڑوں کے مختاراں مائی کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر دل گرفتہ ہوئے تھے اور کئی روز تک کھانا بھی نہیں کھانا تھا ۔ جیسے آپ یہاں کسی بھٹہ خشت پر مزدوری کرتی مظلوم عورتوں کی دستاویزی فلم بناتے خون کے آنسو روتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی وہاں’’جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم‘ دیکھ کر کلیجہ تھام لیتے ہیں ۔ مراد یہ کہ آپ کی طرح ہم بھی حقوق نسواں کے معاملے پر اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنی انتہاپسندی کے خاتمے پرہماری حکومت۔
ہمارے ہاں صنفی مساوات پر اپنے صابرُو مصلی ہی کی مثال لے لیجئے ۔ اس کے بالوں میں چاندی اُتر آئی تو ہم نے پوچھا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے ؟ صابرو نے مختصر مگر جامع جواب دیا ’شادی کیسے کروں خان جی ! جو کچھ میں مزدوری سے کما تا ہوں ، کچھ اپنی اور والد بزرگوار کی چرس لے آتا ہوں اور باقی ماں جی کی افیون‘ صابرو نے اس سلسلے میں کبھی صنفی امتیاز نہیں برتا بلکہ والدہ محترمہ کی ’دوائی ‘ پہلے حاضر کرتا۔ سنا ہے کہ آپ اہل شہر بھی صنفی مساوات پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور بیگمات اوراپنے ساتھ ’دیرینہ تعلقات‘ رکھنے والی خواتین کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے دلوں میں صابرو جیسی تڑپ رکھتے ہیں ۔ قابل فخر بات ہے مگر ہمارے بارے میں اپنی غلط فہمی دور فرما لیں کہ ہم ان بھاگ بھریوں سے ناروا سلوک روا رکھتے ہیں ۔
بلا شبہ آپ تہذیب یافتہ اور شائستہ مزاج واقع ہوئے ہیں ۔ خواتین کا کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں ، ان کی فنکارانہ اور ادبی صلاحیتیوں کو کھل کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، ان کوشاعری، ماڈلنگ ، ایکٹنگ اور کمپیئرنگ کے ذریعے اپنا آپ منوانے کے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں، ان کے خیرہ کن فیشن شوز منعقد کراتے ہیں ، ان کے حقوق کے لیے بینرز اور پوسٹرز لگاتے ہیں، معاشرے میں صنفی امتیاز کے خلاف جلوس شلوس بھی نکالتے ہیں اور اس نیک مقصد کے لیے نت نئی این جی اوز بھی بناتے رہتے ہیں۔ آپ لوگ خواتین کو برابری کی سطح پر ملازمتیں بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے دفتروں کا ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اور آپ دفتری امور خوب دلجمعی سے انجا م دیتے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ ماحول ’آل ریڈی ‘ خوشگوار ہے ۔ یہاں خواتین صدیوں سے ’میرا جسم ، میری مرضی ‘ کے اصول کے تحت کھیتوں ، کھلیانوں ، مویشیوں کی حویلیوں ، کھڈیوں اور کولہوں میں ہم مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ صبح کاذب سے لے کر رات تک دیہاتی عورت ’ برابری کی سطح پر ‘ جتنی جانکاہ مشقت کرتی ہے ، وہ دخترانِ شہر تو کجا خود آپ مردوں کے لیے بھی ممکن نہیں ۔ شہر کی ذہین مصور خواتین خوبصورت دیہی زندگی کی پورٹریٹس بناتی ہیں ، جن میں دیہاتی عورتیں سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی کے دو دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں اٹھا کر جاتے ہوئے بڑی پر کشش لگتی ہیں ۔ تاہم ان فن پاروں کی نرم و نازک تخلیق کاروں اور انہیں آرٹ گیلریوں میں دلچسپی سے دیکھنے والیوں کو ان بل کھاتی پگڈ نڈ یوں پر تین تین گھڑے اٹھا کرپانچ قدم بھی چلنا بھی پڑے تو انہیں لگ پتہ جائے ۔
ہمیں اپنے ملک کی پر عزم اور با صلاحیت خواتین پر فخر ہے ، جنہوں نے وطن کا نام روشن کیا ۔ جیسے بے نظیر بھٹو جو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں ، شرمین عبید چنائے جس نے اپنی فلم پر آسکر ایوارڈ جیتا، ملالہ یوسفزئی جو کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہے ، ڈاکٹر مہرین فاروقی جو آسٹریلیا کی پہلی مسلمان خاتون رکن پارلیمنٹ بنیں ، ڈاکٹر ثانیہ نشتر جس نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں یورپیئن امیدواروں کو شکست دی ، زینب بی بی جسے ردی کاغذ سے بائیو ایتھانول اور بائیو فیول تیار کرنے پر ملکہ برطانیہ نے ینگ لیڈیز ایوارڈ سے نوازا، فوزیہ مرزا جسے وائٹ ہائوس میں چیمئن آف چینج کا ایوارڈ ملا، ڈاکٹر سارہ سعید جس نے اعلیٰ کارکردگی کی بدولت یونیورسٹی آف کیمبرج سے انعام حاصل کیا ، شاندانہ وحید جسے غیر معمولی تعلیمی قابلیت پر نیویارک میں فلک صوفی سکالر شپ ایوارڈ ملا، آرکیٹک یاسمین لاری جس نے جاپانی فوکواوکا ایوارڈ جیتا ، شازیہ رضوی جسے پرائیڈ آف امریکا پرومیننٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، سعیدہ امارہ جس نے ٹیلنٹنڈینگ انٹر نیشنل ڈیزائنر ایوارڈ حاصل کیا،ماہرہ خان جسے بھارت میں ووگ بیوٹی ایوارڈ ملا،فائزہ نقوی جسے عالمی ہیومینٹیرین ایوارڈ سے نوازا گیا اور مونا پرکاش جسے لندن میں کامن ویلتھ ایوارڈ ملا۔
ہمیں ملک کی ستر فیصد دیہی آبادی کی ان کروڑوں بے نظیروں ، شرمین عبید چناؤں ، ملالہ یوسفزیوں ،مہرین فاروقیوں، ثانیہ نشتروں ،سارہ سعیدوں ،یاسمین لاریوں ، شازیہ رضویوں ،زینت بیبیوں ،سعیدہ اماروں ، ماہرہ خانوں اور مونا پرکاشوں پربھی فخر ہے جو نسل در نسل کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنی گرانقدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں مگر کوئی ایوارڈ تو کجا، انہں آج تک پینے کے لیے صاف پانی سے بھی نہیں نوازا گیا ۔ یقینا عالمی ایوارڈز حاصل کرنے والی پر عزم خواتین کو آپ اہل تہذیب کی سپورٹ حاصل ہے جس کی بدولت انہوں نے ملک کا نام روشن کیا ۔ ثانی الذکر دیہاتی خواتین کو بھی اپنے مردوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اورانہیں مشقت کے میدان میں مردوں کے ساتھ ’برابری کے حقوق ‘حاصل ہیں ۔ ملک کا نام تو وہ بھی خاموشی سے روشن کر رہی ہیں مگر ان کے مقدر میں بجلی سے لے کر تعلیم تک کوئی روشنی نہیں ۔ ان کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ گزشتہ چندبرسوں میں یہاں انسانی ترقی پر کھربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں یا مشہورزمانہ تبدیلی کے بعد پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے اور یہ سرمایہ کاری کے لیے بہتر ملک بن گیا ہے ۔
اگرچہ آپ کے ہاں خواتین کے خلاف تیزاب گردی ، زیادتی، تشد د اورجنسی طورپر ہراساں کرنے کے اِکا دُکا واقعات ہو جاتے ہیں اور اسی طرح اِدھر بھی کبھی کبھار غیرت کے نام پر قتل ،ونی،اغوا اور جبری شادیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ تاہم مجموعی طور پر حالات و واقعات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں شہری اور دیہی خواتین صنفی مساوات کے سنہرے اصول کے تحت اپنے اپنے شعبوں میں ’میرا جسم ، میری مرضی ‘ کے اصول کے تحت بلا خوف وخطر کام کر رہی ہیں ۔ البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صنفی امتیاز ہمارا طرہ امتیاز نہیں تو ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل سروے کے مطابق صنفی امتیاز برتنے والے 153ممالک کی فہرست میں وطن عزیز کا نمبر151واں کیوں ہے ؟ ہمارے نیچے صرف عراق اور یمن ہیں ۔ کہیں یہ کوئی عالمی سازش تونہیں؟