عمران خان صاحب حکمت عملی بدلنا ہوگی

عمران خان صاحب حکمت عملی بدلنا ہوگی
خان صاحب آپ کا حقیقی منصب وزیراعظم نہیں بلکہ ایک قومی ہیرو کا ہے جس کا سفر کھیل کے میدان سے شروع ہوا اور آپ کی منزل ایک انسان دوست کی ہے۔ آپ کے حقیقی کارنامے ورلڈ کپ، شوکت خاتم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ہیں۔ جن کے پیچھے آپ کی سوچ ، وژن اور فلاح انسانیت کے لئے دیکھے ہوئے خواب ہیں۔

سیاست بھی انہی خوابوں کی ایک کڑی ہے جس میں آپ کا نعرہ بدعنوانی کا خاتمہ تھا اور کوئی بھی اس سے اختلاف نہیں کرتا مگر حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی۔ آپ کے ان حقیقی کارناموں کو آپ سے سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے بھی مانتے ہیں بلکہ وہ آپ کے معترف، ہمدرد اور مددگار رہے ہیں اور آج بھی اگر آپ اپنے ان حقیقی مقاصد پر کام شروع کر دیں تو پھر سے کوئی اختلاف کرنے والا نہیں رہے گا۔

آپ کا سیاست کا وار بھی خالی نہیں گیا اور بین الاقوامی سطح پر آپ کے دو موقفوں کو سراہا گیا جن میں اسلاموفوبیا اور غریب ریاستوں کے معاشی استحصال کے خلاف آواز تھی اور پھر " ہم کوئی غلام ہیں " کے نعرے کو بھی عوامی سطح پر پذیرائی ملی جو آپ کی حکومت کے دوران پیدا ہونے والی عوامی مایوسیوں کا بھی سہارا ثابت ہوا۔

یہی وہ سوچ ہے جس سے آپ کو عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل ہوں گی اور ایک نیا بلاک بنا کر سرمایہ دارانہ سوچوں کو مخاطب کرنا ہوگا۔ دنیا کو باور کروانا ہوگا کہ ترقی کا راز سودی قرضوں میں نہیں بلکہ قرض حسنہ، صدقہ وخیرات، عطیات اور تجارت میں ہے۔

اسی سے دنیا کی معیشت میں توازن قائم ہوتا ہے اور حقیقی فلاح، امن اور بھائی چارے کے باب کھلتے ہیں۔ سیاست کا مقصد بھی انسان دوستی ہی ہوتا ہے۔ اور دنیا کے تمام کامیاب سیاستدانوں کو جب سیاست میں عروج ملا تو ان کی اگلی منزل انسان دوستی کے لئے کام تھا جن میں میری روبنسن ، کلنٹن اور باراق اوباما وغیرہ شامل ہیں۔

آپ نے تو انسانی دوستی کا کام باقاعدہ سیاست میں آنے سے بھی پہلے شروع کیا تھا۔ اگر عوام کو شعور دیا ہے تو پھر اس کا

سامنا بھی کرنا ہوگا۔ ان کے سخت سوالوں کا بھی خندہ پیشانی سے جواب دینا ہوگا۔ منظم پریس کانفرنسز، کسی کو چپ کروا دینے یا اٹھ کر چلے جانے سے حقائق نہیں بدل جاتے۔ آپ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ اس ساکھ کو بچانا ہوگا۔ ہوسکتا ہے آپ کے دائیں بائیں کچھ لوگوں کے پاس سیاست اور آپ کی قیادت کے بغیر کوئی آپشن نہ ہو مگر عوام سے دور اور ان کی سوچ سے پوشیدہ رہنا بھی آپ کی آپشن نہیں ہو سکتی۔

آپ کو اپنی اصل آپشن کی طرف آنا ہوگا جو عوام کی سوچ کے ساتھ ان کے سنگ رہنا ہے۔ جب مقاصد کے حصول میں ذرائع اور حکمت عملی پوری طرح سے کامیاب نہ ہوں تو ایسے میں متبادل ذرائع اور حکمت عملی کے بارے سوچا جاتا ہے۔ تو ایسے میں میرے خیال میں آپ کو حکمت عملی کو بدلنا ہوگا۔

اس سیاسی کشمکش سے نکلنے کا بہتریں حل یہ ہے کہ اپنے جغرافیائی دائرے کو پاکستان سے بڑھا کر بین الاقوامی اور ہدف کو قوم سے انسانیت کی سطح تک توسیع دی جائے۔ اس سے آپ کو ایک تو فوری  طور پر سیاسی کشمکش سے نجات مل جائے گی اور دوسرا عوامی جنونیت کو ایک بار پھر سے دوام اور اختلاف والوں کو آپ کی صلاحیتوں کو ماننے پر آمادہ ہونا پڑے گا۔

آپ کے پاس انقلابی سوچ کے ساتھ ساتھ انقلابی ٹیم بھی ہے مگر آج ان کی صلاحیتیں غلط سمت استعمال ہو رہی ہیں۔ بس اس نئی حکمت عملی سے ان کے وقت، توانائی اور صلاحیتوں کو صحیح سمت دینی ہوگی جس کا فن آپ خوب جانتے ہیں۔ آپ کا ایک اشارہ نہ صرف ان کی بلکہ ان کے زریعے سے انسانیت کی تقدیر بھی بدل دے گا ۔

اپنے اوپر اٹھنے والے سوالوں کی بہرحال وضاحت دینا ہوگی اور جیسے آپ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے معاملہ میں غلطی کا اعتراف کیا، ویسے ہی اپنی ہر غلطی کا اعتراف کرکے قوم سے معافی مانگ کر نیا تجدید عہد کرنا ہوگا۔ دنیا میں توجہ دو طرح کے لوگ حاصل اور کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی نیا کام کریں اور دوسرے وہ جو نئے انداز سے کریں۔

آپ نے یقیناً پچھلے پونے چار سالوں میں بہت کچھ ایسا سیکھا جو حکومت کے اندر رہ کر ہی معلوم ہو سکتا تھا جس کی اب واضح نشاندہی ہونی چاہیے ۔ اب اپنی سمتوں کو پھر سے غیر جانبدار سوچوں کے تحت لانے کا وقت ہوا چاہتا  ہے۔ اس ملک وقوم کے لئے وہ کرنا ہوگا جو نیا ہو، پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ عوام کو سیاست کے مین سٹریم میں لانا ہوگا۔ ان کو وہ سوچ دینا ہوگی جس میں ان کے اندر اپنے ملک کی اہمیت اور ملکیت کا احساس جاگے اور وہ اس کی املاک، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت اور نگرانی کا حصہ بنیں۔

اپنے حقوق کو پہچانتے ہوئے۔ آئینی ٹولز کے ذریعے احتساب کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ عوام میں شعور اجاگر کرکے ایسا ماحول پیدا کردیں کہ سیاست میں وہی آئے جس کا مقصد صرف اور صرف خدمت ہو، جسے خواہش نہ ہو بلکہ عوام زبردستی اسے اس کام کے لئے منتخب کریں۔ سیاست میں کاروبار والی صورتحال جس میں پیسہ لگاؤ اور پھر بناؤ کا سلسلہ اب ختم کرنا ہوگا۔

پاکستان کی غیر جمہوری سوچوں اور رویوں سے سیاست کو آزاد کروانا ہوگا اور اس کے لئے آدھا سچ نہیں بلکہ پورا سچ بولنا ہوگا تاکہ پچھلی غلطیوں کا ازالہ کرکے جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا جا سکے جس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ خود کو اس سیاسی نظام سے باہر کر لیا جائے تاکہ دباؤ سے آزاد ہو کر کام کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

جماعت کو کسی متبادل قیادت کے حوالے کر دیا جائے۔ اپنے آپ کو جماعت کی سیاسی سرگرمیوں سے فی الوقت علیحدہ کر لیا جائے اور پوری توجہ اپنی نئی آرگنائزیشن کی طرف دی جائے۔ اس ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ بھی شہریوں کی سوچ کو بدل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے عوامی احتساب کا عمل مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے لئے عوام کے اندر خود مختار اور اعلیٰ اخلاق اور صفات کی مالک قیادت کی زیر نگرانی ز ایسے گروپس کی تشکیل ہونی چاہیے جو عوامی منصوبوں سے لے کر عوامی نمائندوں کی بھی نگرانی کریں اور ساتھ ساتھ ترقی کے کام کا حصہ بھی بنیں۔

پھر آپ نے جس طرح سے اداروں پر سوالات اٹھائے ہیں اس کی شاید پہلے مثال نہیں ملتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اچھے انداز میں یہ کوشش آگے بڑھنی چاہیے جس کے لئے غیر جانبداری کا ہونا ضروری ہے اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اقتدار کی خواہش سے آزاد عمل کا آغاز کیا جائے۔

مادی ترقی انسان کی خواہشات کی تکمیل ہے، ضرورت نہیں۔ انسان کی ضرورت کی ہر شے اس ْکائنات کے خالق نے اس دنیا میں پیدا کی ہوئی ہے۔ اس کائنات کو مکمل اور ایک توازن پر قائم کیا ہے اور ہماری خواہشات جس کو ہم ترقی کا نام دے رہے ہیں نے تو فطرت کے حسن کو سبوتاژ کرکے رکھ دیا ہے ۔ جیسے انسان کی سوچ سے معاشی نظام غیر متوازی تقسیم کا شکار ہوا ویسے ہی مادی ترقی سے موسمی تبدیلی نے انسان کا اپنا ہی رہن سہن مشکلات کا شکار کردیا۔

طاقت کے زور پر عائد تجارتی پابندیوں نے دنیا کے وسائل کی تقسیم کو غیر متوازی کردیا ہے۔ بعض ممالک اپنی طاقت کے بل بوتے پر موجیں کر رہے ہیں تو بعض تنہائی کے شکار وسائل کی بہتات کے باوجود مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ عوام کے اندر ایسے گروپس کی ضرورت ہے جو دباؤ سے حکومتوں کو اس غیر متوازی نظام سے بغاوت پر مجبور کریں تاکہ وسائل کی صحیح تقسیم سے آسانیاں پیدا ہوں۔

یہ وہ کام ہیں جن کو کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت سازی سے حکومتوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر جوابدہی کے عمل کا حصہ بنانا کہ وہ دنیا کی ان تباہ کن حکمت عملیوں سے دور رہیں زیادہ اہم ہے۔