سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی

سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کیلئے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی استدعا مسترد کر دی ہے۔ یہ ہی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔ کیس کی سماعت منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوگی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی تشکیل پر آج فیصلہ ہوگا یا نہیں، اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کیلئے مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے۔ دلائل سن کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔

اس سے قبل کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا۔ وکلا میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں۔ ابھی ہم سب کو سنیں گے،اس کے بعد دیکھیں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔

اس پر ایڈووکیٹ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ میری ہدایات فل کورٹ کی تھیں، کیا میں مزید بات کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اس پر ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ان کو اجازت دی کہ آپ اپنی ہدایات لے لیں۔

جسٹس  اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ فل کورٹ کے حوالے سے ہم نے سب کے دلائل سننے ہیں۔ اس اہم معاملے پر ہم آپ سب کو مزید سننا چاہتے ہیں۔ میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گا یا نہیں۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے یہ واضح ہدایات ہیں کہ فل کورٹ بنے۔ چیف جسٹس نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم اس لئے اٹھ کر گئے تھے کہ اس پر سوچیں کیونکہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کا بھی ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کے دلائل

کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں عدالت سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ان کیساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کافی سابق صدور کمرہ عدالت میں موجود ہیں، بتائیں آپ نے کہا کہنا ہے۔

لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ اس وقت درجہ حرارت بڑا ہائی ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ آئینی بحران سے گریز کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم دائو پر لگا ہوا ہے۔ سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔

معزز ججوں نے عرفان قادر کو جھاڑ پلا دی

ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ آپ عدالت کی بات پہلے سن لیں۔ اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آپ چیف جسٹس ہیں، آپ تو ہمیں ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا ذکر بھی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیں۔ عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپ کی معاونت کیلئے آئے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں۔ آپ ناراض ہو گئے ہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ آپ کو وکلا کو ڈانٹنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت جتنا بھی ڈانٹ لے میں خاموش رہوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے، ہم تو آپ کو محترم کہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز ہی کیس سن رہے ہیں جس وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے۔ عدالت ہم سے ناراض نہ ہو جو بھی سوال پوچھا جائے گا وہ بتائیں گے۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کے دلائل

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہو جائے گا، یہ ہی نقطہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا، اس کا بتائیں۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف تین پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔ آپ کا سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں۔ اس پر منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا جبکہ 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔ وکیل حمزہ شہباز کا اس پر کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر موجود ہے۔

وکیل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔ جسٹس منیب اختر کا اس پر کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18ویں ترمیم سے پہلے ارٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا۔ اس کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا۔ ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔

اس پر وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔