انسانی ہمدری اور ہمارے معاشرے کی خلاقیات کا اصول ہے کہ لوگ شادی بیاہ تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن کسی کو بیماری یا موت فوت کے معاملے میں تمام اختلافات بھلا کر اکھٹا ہوا جاتا ہے۔ یہی اصول جرم و انصاف کی دنیا میں بھی لاگو ہوتے ہیں جہاں قیدیوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے بیمار یا قریب المرگ عزیزوں کو مل سکیں اور پھر انکے جنازوں میں شرکت کر سکیں۔ ایسا ہی معاملہ حال ہی میں نیب کی حراست میں آنے والے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کا ہے۔ ان کے بھائی میر جاوید الرحمٰن کراچی کے ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ میر شکیل نے نیب سے درخواست کی کہ انہیں اپنے بھائی کو ملنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا اور میر جاوید الرحمٰن اپنے بھائی سے ملے بغیر چل بسے۔
تب سے نیب کی جانب سے سیاسی استحصال اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا جا چکا ہے۔ یقیناْ جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے۔ تاہم برصغیر اور خاص طور پر پاکستان میں صحافت کے جد امجد میر خلیل الرحمان کے ان دو بیٹوں میر جاوید اور شکیل کے درمیان معاملات کا ایک اور رخ بھی ہے۔ وہ ہے جائداد کے معاملے پر تنازعہ جو کہ لالچ، دھوکہ دہی اور پھر بڑے پن کی ایک داستان ہے۔
انکے والد میر خلیل الرحمٰن کی وفات کے بعد سنہ 1996 میں دونوں بھائیوں کے درمیان حق ملکیت پر تنازعات پیدا ہوگئے تھے اور بات عدالت تک جا پہنچی تھی۔ دونوں نے عدالتوں میں کیسز دائر کر دئے تھے۔ میر جاوید الرحمٰن کی کوئی اولاد نہیں تھی اور انہوں نے میر شکیل الرحمٰن کے ایک بیٹے کو ہی اپنا منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔ ان کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ میر شکیل الرحمٰن نے ان سے جائیداد دھوکہ دہی سے اپنے نام کروائی تھی۔ وہ ہوشیاری سے اپنے نام سب کچھ کروانے پر شکیل الرحمٰن پر دکھی تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس نے میری توہین کی ہے اور میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ میر جاوید کو غصے سے زیادہ صورتحال پر دکھ تھا۔ وہ شاید اس بات کی امید نہیں کر رہے تھے۔ لیکن اس صورتحال میں بھی انہوں نے اپنے بھائی کے خلاف ایک لفظ نہ کہا۔ جبکہ ایک قانونی چال کے طورپر جب انکے وکیل اختر حسین نے میر جاوید کو جنگ کے مقابلے پر ایک چلتے روزنامہ کو بطور جنگ لانچ کرنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے اس لئے انکار کردیا کہ وہ جیت جائیں گے تاہم ادارہ جنگ تباہ ہوجائے گا۔
انکے دوست بھی بتایا کرتے ہیں کہ وہ جب آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے سربراہ تھے تو اپنے ادارہ جنگ کو ہی قوانین کی خلاف ورزی پر کروڑوں روپے جرمانے کر دیئے۔ اتنا سخت میرٹ ہی انکے اور انکے بھائی کے درمیان تنازعات کا باعث بنا تھا۔ تاہم والدہ کی وساطت سے یہ معاملہ ختم ہوا تاہم اس کی تلخی نے کئی برس تک تعلقات میں رنگ جمائے رکھا تھا۔