ٹائیگر فورس کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا حل یا وقت اور پیسے کا زیاں؟

ٹائیگر فورس کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا حل یا وقت اور پیسے کا زیاں؟
گذشتہ سال اگست کا پانچواں روز تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے قصابِ گجرات نریندرا مودی کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وادی کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا اور مقبوضہ وادی کے 80 لاکھ باسی بندوق کی نوک پر گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ پورے عالمِ اسلام، جمہوریت و حقوق انسانیت کے کسی علمبردار نے بھارت کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کی سعی نہ کی۔ پاکستان تنہا کشمیریوں کے لئے آواز بلند کرتا رہا۔ آج قدرت نے پورے عالم کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے ہر ملک ہر شہر کو کورونا وائرس نامی وبا سے دوچار کر دیا ہے اور آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے۔ معیشت کا پہیہ رک چکا ہے، مساجد، گردوارے، مندر، گرجا گھر نیز ہر مکتب فکر کی عبادت گاہیں بند ہو چکی ہیں جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے اب تک چلا آ رہا ہے۔

وطن عزیز میں بھی کورونا نامی وبا کی گونج ہے۔ پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے لگ بھگ 2 ہزار افراد کو متاثر کر دیا ہے جب کہ اس سے 26 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس نے کاروبارِ زندگی معطل کر دیا ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر شہری گھر بیٹھ گیا ہے۔ روزگار ہاتھ سے چھن جانے کے بعد گھروں میں بیٹھے افراد پریشانیوں اور وسوسوں میں غرق ہیں جب کہ مزید پھیلاؤ کو دیکھ کر اس وبا کے فوری ڈھلنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔

ایسے میں وزیراعظم عمران خان نے کورونا ریلیف ٹائیگرز و فنڈ کے قیام  کا فیصلہ کیا تاکہ کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کی وجہ سے جو علاقے متعلقہ انتظامیہ نے سیل کیے ہیں وہاں یہ رضاکار گھر گھر کھانا پہنچا سکیں۔ لیکن قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے کوئے کہا کہ فوج، رینجرز اور پولیس کے ہوتے ہوئے کورونا ریلیف ٹائیگرز تشکیل دینا سیاسی مقاصد کے لئے ہے جب کہ انہوں نے اس فورس پر پیسہ اور وقت برباد کرنے کے بجائے لوکل گورنمنٹ کی فوری بحالی اور کورونا ریلیف فنڈ کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر زور دیا ہے۔



جہاں اس وبا نے ایک طرف کاروبار زندگی معطل کر کے عوام کو بیروزگاری، تنہائی اور مشکلات سے دوچار کیا ہے، وہیں اس وائرس نے بعض منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور عوام کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی چاندی بھی کر دی ہے۔ حکومت نے 31 مئی تک تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے اور یہ دورانیہ موسم گرما کی چھٹیوں کے طور پر شمار کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ملک کے مخلتف علاقوں میں مبینہ طور پر پرائیویٹ سکولز کے مالکان نے فیسیں بٹورنے کے لئے واٹس ایپ کے ذریعے طلبہ و طالبات کو اسائنمنٹس دینے کا سلسلہ جاری کیا ہے۔

منافع خور مہنگے نرخوں پر اشیائے خورد و نوش فروخت کر رہے ہیں۔ چکی کا آٹا 80 روپے فی کلو، 10 روپے والا ماسک 30 روپے، نیز دیگر اشیا بھی مہنگے داموں فروخت ہونے لگی ہیں۔

حالانکہ کورونا نے ذات پات، رنگ نسل، عربی عجمی، مذہب و عقیدت سے بالاتر ہوکر شکار کیے مگر ہمارے ہاں لوگ اب بھی ایسے وقت میں جب انسانیت مشکل سے دوچار ہے کورونا کو مخصوص مذہب، مسلک، ملک سے جوڑنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہاں گزارش کی جاتی ہے کہ امریکہ نے بھی یہی غلطی کہ کورونا وائرس کو چائنہ وائرس قرار دینے کی ٹھان لی لیکن جب خود امریکہ کا سامنا اس وبا سے ہوا تو اب لینے کے دینے پڑے ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور کورونا کو محض مضر وائرس سمجھ کر اس سے نبردآزما ہونا چاہیے تاکہ معیشت، وسائل، اور قیمتی جانوں کا زیاں روکا جا سکے۔

بصورتِ دیگر اٹلی، ایران، امریکہ اور چین ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں۔ اول الذکر تین ممالک نے اس وبا کو ہلکے لیا اور آج وہ مشکل میں ہیں۔ وہاں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ جب کہ چین نے سنجیدگی سے اس وبا کا سامنا کیا اور آج چین میں زندگی کی رونقیں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

ہم وطنوں سے عرض ہے کہ اگر دوسرے کے دکھ درد میں شریک نہیں ہو سکتے، ان کی مشکلیں آسان نہیں کر سکتے تو خدارا مشکل، دکھ درد بڑھانے کا باعث بالکل نہیں بننا چاہیے۔ بے شک قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں جن کو شکست ایک قوم بن کر ہی دیا جا سکتا ہے۔