بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کے بجائے ٹائیگر فورس بنا کر عمران خان نے عوامی مفاد پر سیاست کو ترجیح دی

بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کے بجائے ٹائیگر فورس بنا کر عمران خان نے عوامی مفاد پر سیاست کو ترجیح دی
کورونا کے باعث قربتیں اور التفات اتنے بڑھے ہیں کہ ایسے دوست احباب جو شاذ ہی سال میں خیریت تو درکنار کام کے واسطے ایک آدھ کال کر لیتے تھے، اب دن میں تین چار مرتبہ کال کر کے خیریت دریافت کر لیتے ہیں اور اس بہانے ان کے ساتھ ساتھ ہماری بھی وقت گزاری ہو جاتی ہے۔ دوست و احباب کی فہرست میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جن سے اخبار کی ایک ہیڈ لائن نہیں پڑھی جاتی تھی اب درجنوں کتابیں گھول کر پی گئے ہیں۔ مزید کتابیں پڑھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ باہر کی دنیا میں تو دوریاں بڑھ گئی ہیں لیکن اندر کی دنیا میں قر بتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ قربتیں واقعی بڑھی ہیں یا وقت گزاری کا اچھا بہانہ ہے۔

اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس وبا کے باعث مطالعہ کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ ہمارےایک دیرینہ دوست نے تو ایک کتاب لکھنی شروع کر دی ہے، جس سے دفتر میں ایک لیٹر لکھا نہیں جاتا تھا۔ جب پوچھا گیا کہ بھیا آپ سے تو ایک فقرہ لکھا نہیں جاتا تھا، یہ کس بکھیڑے میں پڑ گئے آپ، کہنے لگے بندہ ان دنوں کتاب بھی نہ لکھے تو کیا کرے؟ اب پتہ چلا ہے کہ ہمارے ہاں کتنے ارباب قلم ہیں لیکن کم بخت دنیا داری نے ہم سے ہماری دانشمندی بھی چھین رکھی تھی۔

یہ حقیقت ہے کہ گھر کا ماحول تو مردوں کو راس نہیں آتا کیونکہ ان کا بیشتر وقت باہر کی دنیا میں گزرا ہے۔ اب ان کا یوں گھر مقید ہونا کسی سزا سے کم نہیں۔ ایسے حالات میں ہمارے کچھ قلم شناس دوست اس opportunity سے استفادہ کر رہے ہیں، لیکن تاسف یہ ہے کہ نظام تعلیم مفلوج ہو گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری زندگی کی تمام تانیں اور سر اس آلہ تعلیم سے جڑی ہیں۔



خواہ وہ معیشت ہو، ثقافت ہو یا سماجی ارتقا، سب اسی سے نمو پاتے ہیں لیکن اس کا یوں منجمد ہونا کسی کرب سے کم نہیں۔ اسی چیز کے پیش نظر ٹیلی سکول سسٹم متعارف کیا گیا ہے جس سے گھروں میں محصور طلبہ مستفید ہو سکتے ہیں، لائقِ تحسین عمل ہے۔ بد قسمتی سے کم بخت کورونا بڑی آب وتاب سے انسانی جانیں ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اس کے سبب وطن عزیز میں دو ہفتے مزید لاک ڈاٶن کرنا پڑا۔ جان ہے تو جہاں ہے۔

وفاق اور سندھ میں سیاسی اتفاق رائے کا بڑا فقدان ہے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ تاجر دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔ انہوں نے اپنی دکانیں کھولنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مذہبی حلقوں کے اعلانات کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ ماہ صیام میں مساجد میں تراویح کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک گنجلک سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں جب دنیا اس ان دیکھے وائرس کے خلاف گٹھ جوڑ کر رہی ہے تو ہم نے تنقید کے نشتر اور دشنام طرازی کا بازار سجا رکھا ہے۔

خیالات کے دھارے مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں۔ مسلسل غورو فکر کے بعد بھی کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی عدم اتفاقی کی وجہ سے غلطیاں ہو رہی ہیں، جس کے اثرات عوام پر پڑ رہے ہیں۔ حکومت کو کیا ضرورت تھی ٹائیگر فورس، ٹاسک فورس، درجن اتھارٹیز بنانے کی؟ حکومت کے پاس سادہ سا میکنزم تھا۔ وہ بلدیاتی اداروں کو فعال کرتی۔ بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کرنا ایک بلنڈر ہے۔ عوام کو جس سطح کا ریلیف معاشی پیکجز اور علاج معالجے کی ضرورت تھی وہ مکمل نیٹ ورک اور ڈیٹا پہلے سے بلدیاتی اداروں کے پاس تھا لیکن حکومت نے اس چیز سے استفادہ نہیں کیا۔ اس چیز کو نظر انداز کر کے اپنی سیاسی ترجیحات کو فوقیت دی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔