سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط پر ازخود نوٹس لے لیا

ججز کے خط کے معاملے پر پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے. 7 رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے کی سماعت بدھ کو کرےگی۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط پر ازخود نوٹس لے لیا

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے خط پر سپریم کورٹ نےازخودنوٹس لےلیا۔

تفصیلات کے مطابق ملک بھر کے 300 سے زیادہ وکلا نے خط کے ذریعے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی بھی خط لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سینیئر وکلا سلمان اکرم راجا، عبد المعیز جعفری، ایمان مزاری، زینب جنجوعہ اور دیگر بھی خط لکھنے والوں میں شامل ہیں۔

وکلا کا دباؤ کام آ گیا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہائیکورٹ ججز خط کا نوٹس لے لیا ۔

چیف جسٹس نےججز کے خط کے معاملے پر پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا۔ 7 رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ یحییٰ خان آفریدی جمال خان مندخیل، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل ہیں۔ 

سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بدھ کو  ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ ملک بھر کے 300 سے زیادہ وکلا نے 6 ججوں کی جانب  سے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہےکہ ہائیکورٹ کے 6  ججوں کے ساتھ اظہاریکجہتی اور ان کے جرأت مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں۔ ہائیکورٹ ججوں کے خط کے معاملے پر  مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے۔ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے۔

خط میں کہا گہا ہےکہ مفاد عامہ کی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشرکیا جائے۔ اگر جج بغیرکسی خوف  انصاف کی فراہمی میں آزاد نہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل شوکت صدیقی نے بھی ایسے الزامات لگائے تھے۔

خط میں کہا گیا ہےکہ فوری اور  شفاف انکوائری میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی  پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔  تمام بار ایسوسی ایشنز  اجتماعی لائحہ عمل طےکرکے فوری وکلا کنونشن بلائیں۔ اس معاملے کو  شفاف طریقے سے نمٹا کر عدلیہ کی آزادی  پر عوام کا اعتماد بحال کرنےکی ضرورت ہے۔  شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے۔

وکلا نے مطالبہ کیا ہےکہ سپریم کورٹ گائیڈ لائنز  مرتب کرے اور  تمام ہائیکورٹس سے مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے۔  مؤثر اور شفاف طریقے سے اس معاملے کو نمٹایا  جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی  پر حرف نہ  آئے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوگئی۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر 2 مرتبہ ہونے والے فل کورٹ اجلاس کے بعد 29 مارچ کو اعلامیہ جاری کیا گیا ۔ اعلامیے کہ مطابق  چیف جسٹس نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا جس میں خفیہ ایجنیسوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی منظوری دی گئی جبکہ سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر کیا گیا۔