احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لے اور حکومت کو اسلام آباد میں 27 مارچ کو کال کیا گیا جلسہ کرنے سے روکے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں موجودہ سیاسی صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائوس پر جو حملہ کیا گیا، اس میں یہ چیز واضح ہو چکی ہے کہ ہماری ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن مفلوج ہو چکی تھی۔ حکومتی جماعت کے دو اراکین اسمبلی اپنے کارکنوں کے ہمراہ پہنچے اور کیمروں کے سامنے سندھ ہائوس کا گیٹ توڑا اور کہا یہ تو ٹریلر ہے، ابھی فلم تو دکھائی جائے گی۔ اس کے علاوہ حکومتی وزرا جس قسم کے بیانات جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد حکومت سے یہ توقع رکھنا رسک کا کام ہوگا کہ وہ اس ساری صورتحال میں ذمہ داری کا کردار ادا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی خوفناک صورتحال ہے، حکومت سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھے گی۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فوری کوئی آرڈر پاس کرے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کو بروئے کار لا کر اسلام آباد کی انتظامیہ کو یہ ہدایات جاری کرے کہ جب تک سیاسی معاملات ٹھیک نہ ہو جائیں، اسلام آباد میں کسی جلسے جلوس کو داخل ہونے کی قطعی اجازت نہ دی جائے۔
رضا رومی نے ایک اہم سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ کیا آپ موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری سسٹم کو لپیٹا جا سکتا ہے؟ یا ماورائے آئین اس کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو ایسا نتیجہ نکل سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ریاست کے اندر باوجود بہت ساری کمزوریوں اور خامیوں کے اتنی جان ہے کہ اس کے ادارے بغیر کسی خرابی اور پورے نظام کو لپیٹے ایسی صورتحال کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا جاتا تو سپریم کورٹ اس میں مداخلت کر سکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس اس کے بعد حل ہی یہی ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور آرڈر جاری کروائیں کہ آئین وقانون پر عمل کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن کو جلد ہی کوئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دینی چاہیے کیونکہ اگر اس میں دیر کی گئی تو ٹائم ٹیبل متاثر ہوگا۔ اگر اپوزیشن کل ہی اپنی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں حکومت پر دبائو بڑھے گا جبکہ بروقت کوئی آرڈر بھی آ سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ یہ سجمھتی ہے کہ ہمارے آئین میں تحریک عدم اعتماد کے بارے میں جو طریقہ کار اور ٹائم فریم دیا گیا ہے وہ کسی صورت متاثر نہ ہو جبکہ اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ہم آئین اور قانون کے اوپر بڑی سختی سے عملدرآمد کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں حوصلہ افزا تو ہیں لیکن سب کو بہت ہی چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے معاملات میں جہاں بہت سی چیزیں دائو پر لگی ہوں، وہاں بعض اوقات لوگ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور ایسے اقدامات اٹھا جاتے ہیں جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے ناصرف اداروں بلکہ عوام کا بھی دبائو رہنا چاہیے تاکہ چیزیں درست طریقے سے چلیں۔