ہلکا پھلکا گرد باد

ہلکا پھلکا گرد باد
تحریر: ( ادریس بابر) گرد باد میں گرد اور باد جس قدر بھی ہوں، محمد عاطف علیم کے دوسرے ناول کے پس ورق پر درج اختر رضا سلیمی کی راے پچاس فیصد درست لگی اور سو فیصد درست ثابت ہوئی، واقعی جب ایک بار کتاب ہاتھ میں لے لی تو پھر پڑھے بغیر نہیں رکھی گئی۔

جب میری اور کتاب کی جان ایک دوسرے سے چھوٹی تو ایک تیسرا سوال پیدا ہوا، کیا اس بارے میں کچھ لکھنا بنتا ہے؟ میرے کیا، آج کل شاید کسی بھی لکھنے والے کے پہلوٹھی اور معمول کے دونوں سوال باہم جڑواں ہوتے ہیں اور اپنے اس برادرِخورد تیسرے سوال سے عمر میں ایک قدِآدم بڑے بھی۔

پہلا سوال یہی کہ چھاپے گا کون؟ اور دوسرا وہی کہ محنت کی اجرت بھی دے گا کیا؟ یا حسب معمول میڈیا کی کسمپرسی، حکومت کی نالائقی موسم کی خرابی وغیرہ کا بہانہ وغیرہ بنا کر بات قریب قریب یومِ آخرت پر ٹالنے کی کرے گا۔ اب خرافات پر کون کب تک یقین کرے بھلا۔! وہ بھی جب ان عوام دوست سایٹوں کے اپنے خواص کا پہلا قدم  ہوائی اڈے پر پڑتا ہو تو دوسرا ہوائی جہاز میں۔

تو پھر گرد باد پر لکھنے کی کیا وجہ بنی، اول تو یہ کہ میں تازہ تازہ مادام ارون دھتی راے کے انگریزی ناول کا ویسا ہی شاندار اردو ترجمہ پڑھے بیٹھا تھا۔ جو محترمہ ارجمند آرا نے کیا اور جناب اجمل کمال نے چھاپا ہے۔ لہذا قوی امید تھی کہ منیر فیاض کی فیاضانہ رائے کے باوصف گرد باد اول تو اٹھے گا نہیں یا بس دب کے رہ جائے گا۔

اور شروع شروع میں کچھ، بہت کچھ ایسا ہی لگا بھی، ناول کو فاضل مصنف جتنا عالم نہ سہی، قدرے بہتر ایڈیٹر ملنا چاہئے تھا۔ مگر کیا کیا جائے، اردو کے زیادہ تر پبلشر اردو بازاری سے ڈھلک للک کر نرے بازاری رہ گئے ہیں۔ حرام ہے جو پروفیشنلزم نام کی نیلی چڑیا ان کے عزیز سروں پر کبھی چہچہائی ہو، کانوں کے مابین خلا میں سوائے کرنسی نوٹوں کے کوئی شے سرسرائی ہو۔

اور ادیب تو جناب پھر ادیب ہیں، ہمارے مارکیز باقی کوئی بھی چیز گوارا کر لیں گے، تنقید نہیں، ہمارے کنڈیرے بھلے گنڈیرے بیچ لیں گے، ایک پیرے پر نظر ثانی نہیں کریں گے۔ کہیں واقعاتی تضادات سے کوفت بھی ہوئی، کبھی ایشیائی کلیشیائی برسات سے ڈر کے کافی کے مگ میں پناہ بھی لینی پڑی۔ خیر، کسی بھی کلبوت یا بھوت کی پروا کیے بغیر میں پڑھتا گیا، پڑھتا چلا گیا اور یہ کوئی برا فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔

شاعر کے برعکس ناولر کے لیے زمان و مکان کی حدود و قیود کا پاس رکھنا از حد ضروری ہے۔ تاریخی واقعات اور شخصیات سے لے کر جغرافیائی مقامات و حالات تک، کہانی کے اہم حقائق کو بے نیازی کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ اردو فکشنی و فیشنی تنقید کو جانے کس نے یہ پٹی پڑھا دی ہے کہ میجک رئیلزم ہو نہ ہو تخیل کے بے تکے جگاڑ سے جنم لیتا ہے یا حقیقت کے بے ربط بگاڑ سے، خدا حشر میں ہو مددگار ان کا۔

البتہ حیرت ضرور ہوتی ہے جب سینتیس برس کا موجو ناول کے ابد تک جیتا رہتا ہے، مصنف کے سمجھانے کے باوجود کہ اس کی عمر کنارے لگنے کو ہوئی (ص 179)، کوٹ ہرا سے لاہور تک ریل کے سفر کی بابت نیم رضاکارانہ ہجرت کا تاثر چھوڑنے کے بعد یہ انکشاف آدھا اثر کھو بیٹھتا ہے کہ اجتماعی زیادتی کے شکار خاندان کے لئے یہ مرگِ مفاجات حکمِ حاکم تھی، جس سے مفر کی کوئی صورت نہ تھی۔

ایسے ہنگامی حالات میں جب  رمجو کا نوعمر بیٹا (ص 10) پل پل جوان  ہونے لگتا ہے (ص 11) ...تے بندہ کی کرے، جو اوہدا جی کرے۔

ناول کی مضبوطی اس کے متلون مزاج کرداروں میں درج ہے جو اپنا اظہار ہر سطح پر اور مختلف انداز میں کرتے پائے جاتے ہیں۔ کہیں دھیرج سے! کبھی دھماکے سے، موجو کا چھپ کر حملہ کرنا ٹھیک لگتا ہے تو حمیدے کا مار کھا کر بھاگنا بھی درست نہیں، شمو کنجری ہو یا چراغ شاہ، اپنے اپنے انکار کی قیمت سب کو چکانا پڑتی ہے۔ گرد باد کا فیٹلزم دم گھونٹ دینے والا ہے، پر کیا کیا جائے کہ یہی حقیقت ہے۔ میرے عزیزو۔! تمام دکھ ہے۔

گرد باد کے مرکزی کرداروں کے مابین ہر طرح کا تناؤ موجود ہے، ذہنی اور جسمانی، جنسی اور اعصابی۔ ناول کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس تناؤ کو حقیقی اور غیر حقیقی کے درمیان کہیں لا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کردار اپنی مرضی سے یا حالات کے دباؤ میں جو راہ اختیار کریں سو کریں، تخلیق کار ان کی کوئی خاص مدد کرتا نظر نہیں آتا۔ یہ اچھی بات ہے، یہ بری بات ہے۔

تاہم ناول کی  بنیادی خوبی اس کے ضمنی کردار ہیں، جو بھلے ہی لمبے چوڑے سٹروکوں سے پینٹ کیے گئے ہوں، بالکل بھدے نہیں لگتے۔ ان کی اپنی ہڈ بیتیاں، جگ بیتیاں، ناول کے مرکزی بیانیے کو رونق دیتی، اعتبار بخشتی ہیں، بلکہ کسی حد تک پہلو دار بنا دیتی ہیں۔

موقعے کے مطابق چولے بدلتا چراغ شاہ اور اس کی بظاہر گم سم عورت، ماضی کا  کتھک مزار بن چکے استاد اشرف علی خان اور مستقبل کا انڈسٹری ٹائیکون بننے والا عبد الحمید۔ طوطی جان سے نیلی چڑیا تک سب مل کر اس گرد باد کا تانا بانا بُنتے ہیں جو مشک پوری کی ملکہ کے مصنف کا دوسرا ناول ہے۔

گرد باد میں مؤثر منظر نگاری کی کمی نہیں، مکالمہ نویسی بھی اچھی خاصی ہے۔ اسی کی دہانی کی اسلامایزیشن اور اس کے سیاسی سماجی اثرات دکھانے میں ناول نگار اپنے بیشتر معاصروں جتنا ہی کامیاب رہا ہے، یعنی ایک حد تک۔ وہی حد جس سے آگے  بڑے بڑوں کے پر احتیاطن خود بخود جل جاتے ہیں، نہ جلیں تو جلا بھی دیے جاتے ہیں۔

مجھے ناول کا سب سے جاندار حصہ وہ لگا جس میں ابو سالم اور اسامہ الکبریٰ نام کے دو عدد مجاہد اپنے کمانڈر ابو معاویہ یعنی حمیدے کی لاش اس کے وارث یعنی چودھری موج دین کے سپرد کرنے جا رہے ہیں، کسے ان کی باتیں چپ طاری کر دیتی ہیں اور جسے ان کا سکوت کلام کرتا ہے، پڑھنے کے لائق ہے۔

مصنف شاعر ہیں۔