گزشتہ ایک ماہ میں 23 افراد جبری طور پر گمشدہ ہوئے: جبری گمشدگیوں کے 4748 کیسز نمٹا دئیے گئے

گزشتہ ایک ماہ میں 23 افراد جبری طور پر گمشدہ ہوئے: جبری گمشدگیوں کے 4748 کیسز نمٹا دئیے گئے

ملک میں جبری گمشدگیوں کا سراغ لگانے والے کمیشن نے اپنے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن نے گزشتہ نو سالوں میں جبری گمشدگیوں کے 4748 کیسز نمٹا دئیے جبکہ کمیشن کے پاس 2072 کیسز زیر التوء ہے جس پر کام جاری ہے۔ کمیشن نے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں کمیشن کو 6831 جبری گمشدگیوں کے کیسز موصول ہوئے۔


سرکاری اعداد و شمار میں واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے 23 مزید کیسز موصول ہوئے جبکہ نومبر کے مہینے میں کمیشن نے 34 افراد کا سراغ لگالیا ہے جن میں دس افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ، چار افراد فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید، چار افراد جیلوں میں قید جبکہ تین افراد کی نعشیں ملی ہے۔ کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ گزشتہ ماہ تیرہ کیسز کو خارج کیا گیا کیونکہ وہ جبری گمشدگیوں کے نہیں تھے۔


جبری گمشدگیوں کا سراغ لگانے والے کمیشن نے کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ نو سالوں میں 2167 افراد گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں جن کے کیسز کمیشن کے پاس درج ہوچکے تھے جبکہ کمیشن نے 852 مزید افراد کا سراغ بھی لگالیا ہے جو اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہے جن میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں 219 افراد کی نعشیں ملی ہے جو جبری طور پر گمشدہ کئے گئے تھے اور ان میں زیادہ تعداد 66 پنجاب کے شہریوں کی ہے جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے اٹھ رہائشی بھی ان میں شامل ہے۔


واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں کے یہ اعداد و شمار ملک میں جبری گمشدگیوں کے کیسز سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ کمیشن کے پاس وہی اعداد و شمار ہے جو جبری طور پر گمشدہ کئے گئے افراد کے خاندان والوں نے درج کئے ہیں۔


کمیشن اور اس کی سربراہ کی کارگردگی پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کی بین القوامی تنظیموں نے مسلسل تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کمیشن کے شفافیت پر سوالات اُٹھائے ہیں۔


کمیشن نے گزشتہ دس سال میں ایک ہزار ایسے کیسز بھی نمٹا دیئے ہیں جو جبری گمشدگیوں کے نہیں تھے اور ان کے خاندان والوں نے جبری گمشدگیوں کے کیسز درج کئے تھے۔


کمیشن کے ماہ اکتوبر کے  اعداد و شمار میں کہا گیا  ہے کہ کمیشن نےاکتوبر کے  مہینے میں  24 لوگوں کا سراغ لگا لیا جن کے خاندان والوں نے کمیشن کے ساتھ جبری گمشدگی کے رپورٹس درج کئے تھے ۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ سراغ لگائے گئے 24 افراد میں سے 16 افراد اپنے گھروں کو واپس اگئے ہیں جبکہ چھ گمشدہ افراد فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہے۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ دو لوگ جن کا کمیشن نے سراغ لگایا ہے اس وقت ملک کے مختلف جیلوں میں قید ہے جبکہ چھ کیسز کو خارج کیا گیا کیونکہ وہ جبری گمشدگیوں کے زمر ے میں نہیں آتے تھے۔


کمیشن نے گزشتہ مہینے کیسز پر سماعت کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے عنایت الرحمان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے ان کے بیگم مریم بی بی کی موجودگی میں کہا کہ عنایت الرحمان کو ایکشن ان ایڈ اف سول پاور ریگولیشن کے تخت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز فیتوم سوات میں قید کیا گیا ہے۔


کمیشن نے دیر سے تعلق رکھنے والے فیروز شاہ کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  فیروز شاہ فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز فضاگٹ سوات میں قید ہے اور خاندان والوں کی ملاقات جلدی ملزم کے ساتھ کی جائے گی۔


کمیشن نے بنوں سے تعلق رکھنے والے شہزاد خان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو ریاستی ادارے کا اہلکاروں نے بتایا کہ شہزاد پر مختلف قسم کے دہشتگردی کے مقدمات ہے اور وہ اس وقت لکی مروت میں فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز (انٹرنمنٹ سنٹر) لکی مروت میں قید ہے۔


کمیشن نے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے فاروق کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو سرکاری حکام نے کہا کہ وہ اس وقت انٹرنمنٹ سنٹر لکی مروت میں قید ہے اور خاندان والوں کی ملاقات جلدی کروا دی جائے گی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔