پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں قائم سات حراستی مراکز میں رکھے جانے والے افراد کا مکمل ریکارڈ طلب کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو خبردار بھی کیا ہے کہ اس دوران حراست میں لیے گئے افراد کو کہیں بھی منتقل نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو ان مراکز سے ہٹایا جائے۔ عدالت نے یہ حکم بدھ 13 نومبر کو ایک اپیل کی سماعت کرتے ہوئے دیا۔ یہ اپیل کے پی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف دائر کی تھی۔ جس میں ہائی کورٹ نے کے پی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کہ تحت ملک کی مسلح افواج صوبے میں کسی بھی شخص کو وجہ بتائے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھ سکتی ہیں۔ اس قانون کے خلاف فرحت اللہ بابر، افراسیاب خٹک، بُشری گوہر اور روبینہ سہگل نے بھی عدالت میں ایک اپیل دائر کی ہے، جس میں اس قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔
پاکستان میں گمشدہ افراد کا مسئلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور سب سے زیادہ ایسے افراد کا تعلق بلوچستان اور پختونخوا سے ہے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کے پی میں قائم حراستی مراکز میں کئی گمشدہ افراد کو رکھا گیا ہے، جن کے بارے میں ان کے لواحقین کو اطلاع نہیں دی جاتی۔ تاہم اب انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی پر امید ہیں کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم کے بعد ملک کے طاقت ور اداروں کا احتساب بھی ممکن ہو گا: ''مقتدر اداروں کو سوچنا چاہیے کہ ایسے کاموں سے دنیا میں ان کی بد نامی ہو رہی ہے۔ کس مہذب ملک میں لوگوں کو اس طرح اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے؟ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کا عدالتوں پر بھی اعتماد ختم ہو رہا تھا اور میرے خیال میں معزز عدالتوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے۔ اسی لیے انہوں نے یہ اہم ہدات دی ہے۔‘‘
پاکستان میں گمشدہ افراد کا مسئلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور سب سے زیادہ ایسے افراد کا تعلق بلوچستان اور پختونخوا سے ہے۔
پاکستان میں مقتدر حلقوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عدالتوں میں پیش ہونے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، جس کی وجہ سے اس طرح کے مقدمات طول پکڑتے رہتے ہیں۔ لیکن اسد بٹ کا خیال ہے کہ اب ایسا ممکن نہیں ہوگا: ''میرا خیال ہے کہ عدالتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ یہ اطلاعات ان کو فراہم کی جائیں۔ یہ عدالتوں کے وقار کا بھی مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر موجودہ چیف جسٹس ریٹائر بھی ہوجائیں پھر بھی یہ مسئلہ آگے بڑھے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے مطابق معروف پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ یہ حکم بہت حوصلہ افزا ہے: ''دیکھیں جی الزام یہ ہے کہ صرف کے پی میں تیس ہزار کے قریب افراد لاپتہ ہیں۔ اس دعوے کو اسی وقت غلط ثابت کیا جا سکتا ہے، جب ہر بات ایمانداری سے عدالت کے علم میں لائی جائے اور عدالت کو بتایا جائے کہ کتنے افراد ایسے مراکز میں رکھے گئے ہیں اور کیوں رکھے گئے ہیں۔ ہمارے طاقت ور ادارے پارلیمنٹ اور عدالت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ لیکن اس حکم کے بعد ان کے احتساب کے دروازے کھل سکتے ہیں۔‘‘
حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھی قانونی ماہرین کی آراء مختلف ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد حسن منٹو کے خیال میں اس طرح کے حراستی مراکز کی ان کی معلومات کے مطابق کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے لیکن معروف قانون دان لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ بات ملک کے بقیہ حصوں کے حوالے سے تو درست ہے لیکن کے پی میں اس طرح کا قانون موجود تھا: ''وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے لیے یہ قانون بنایا گیا تھا، جس کو کے پی کی صوبائی حکومت نے بعد میں پورے صوبے پر لاگو کر دیا اور اسے پھر مختلف افراد نے چیلنج کیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر مقتدر ادارے یہ تفصیلات بتاتے ہیں تو بھی ان کے لیے مشکل ہوگی اور اگر نہیں بتاتے تو پھر بھی مشکل ہوگی۔
جہاں سول سوسائٹی اس حکم پر خوش ہے تو وہیں رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے سیاست دان اس حکم پر کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔ بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اور نیشل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم کا کہنا ہے کہ اس حکم کے بعد کئی سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں: ''سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عدالتوں کی اتنی بساط ہے کہ وہ ملک کے طاقتور اداروں کا احتساب کرِیں اور ان کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ میں اس حکم کا خیر مقدم کرتا ہوں اور امید کرتا ہے کہ اس طرح مراکز کے جو ملک کے دوسرے علاقوں، خصوصاﹰ بلوچستان میں بھی قائم ہیں، عدالتیں ان میں رکھے گئے افراد کی بھی تفصیلات منگوائیں گی اور جو ان افراد کو پکڑ کر ٹارچر کرتے ہیں، ان کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں، انہیں بھی قانون کی گرفت میں لائیں گی۔‘‘