آئیڈیل خان: سرزمین پشتونخوا کا جمہوریت پسند فرزند 'خان شہید'

آئیڈیل خان: سرزمین پشتونخوا کا جمہوریت پسند فرزند 'خان شہید'
پشتونخوا وطن وہ مردم خیز سرزمین ہے جس نے اپنے وقت کے ہر اُس جابر اور استعمار جس نے اس وطن پر یلغار کی ہے، کے مقابلے کے لئے ایسی ہستیاں جنم دی ہیں جنہوں نے استعماریت اور ظلم و جبر سے وطن و قوم کو نجات دلانے کے لئے لازوال اور ناقابل فراموش جدوجہد کی ہیں. پشتونخوا وطن کے ایسے ہی عظیم ہستیوں میں سے ایک نام خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا ہے جو پشتون قوم و دیگر محکوم اقوام کی تاریخ میں آزادی، قومی و انسانی حقوق کی حصول اور عوامی بالادستی کے لئے جہدِ مسلسل اور اس راہ میں جامِ شہادت نوش کرنے کے بدولت نا صرف عامیوں بلکہ خواص میں بھی دراز قامت نظر آتے ہیں.

خان شہید ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. آپ سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ریفارمسٹ، ادیب، زبان دان، دینی علوم پر دسترس کے حامل اور ایک کہنہ مشق صحافی تھے. پشتون بلوچ صوبے کے عظیم دانشور اور آپ کے رفیق سائیں کمال خان شیرانی آپ کی اس ہمہ جہت شخصیت سے پہلی ملاقات میں اتنے متاثر ہوئے کہ زندگی بھر آپ کو "آئیڈیل خان" کے نام سے پکارتے تھے. ویسے تو آپ کے جدوجہد کا ہر پہلو قابلِ ستائش ہے لیکن زیرِ نظر تحریر میں جمہور کی بالادستی اور جمہوریت کے لئے آپ کی انتھک جدوجہد پر روشنی ڈالی جائے گی.

خان شہید نے ایک ایسے وقت میں جنم لیا جب انگریز استعمار نے بولان سے لے کر چترال تک کا تاریخی پشتون افغان علاقوں کو بزورِ طاقت اور گندمک اور ڈیورنڈ جیسے جبری نام نہاد معاہدوں کے ذریعے افغانستان سے علیحدہ کرکے ہندوستان میں شامل کردیے تھے اور یہاں بزور طاقت اپنی حکومت قائم کرلی تھی. بیرونی حکمرانوں نے یہاں بسنے والوں کو اپنے آج اور آنے والے کل کا فیصلہ کرنے کے اختیار سے محروم کررکھا تھا. باقی ہندوستان کے برعکس جہاں لوگ ووٹوں کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے برٹش بلوچستان میں بدنام زمانہ سیاہ قانون ایف سی آر (فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) لاگو تھا. فرنگی پولٹیکل ایجنٹ یہاں کا مطلق العنان حکمران ہوتا تھا اور سرکاری جرگے جس کے اراکین خوشامد، کاسہ لیسی اور ضمیر فروشی کی بنیاد پر منتخب ہوتے تھے، کے ذریعے کارِ سرکار چلایا جاتا تھا جس کے نتیجے میں معاشرتی ارتقاء جمود کا شکار ہوچکا تھا اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن چکی تھیں.

مقامی باشندوں کو حق حکمرانی سے محروم رکھنے اور اپنے استعماریت کیلئے جواز تراشنے کے لئے انگریز یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتے تھے جو آج بھی کیا جاتا ہے کہ پشتون جمہوریت چلانے کے قابل نہیں ہیں.

خان شہید  اپنی سوانح عمری "زما ژوند او ژوندون" کے پہلے جلد صفحہ نمبر 89-183 میں اس پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اور جمہوریت کی افادیت کے بارے میں اپنے گاؤں کے کاریز چلانے کے نظام کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کاریز کا نظام تقریباً پچھلے سو برسوں سے چلا آرہا ہے. اس کاریز میں امیر غریب، طاقتور کمزور، گھر سے مسافر اور یہاں تک کہ یتیماء اور بیوہ عورتیں شریک ہیں لیکن مجال ہے کہ آج تک کسی ایک کی حق تلفی کی گئی ہو۔ 


کاریز کے منتظم کا انتخاب ووٹوں کے ذریعے عمل میں لایا جاتا تھا جو پانی کی تقسیم اور کاریز کے چلانے کا فیصلے کرتا تھا اور اس وقت تک اس منصب پر براجمان رہتا تھا جب تک شرکاء کا اس پر اعتماد قائم رہتا تھا. سال میں دو مرتبہ کاریز کے شرکاء کا اجلاس منعقد ہوتا تھا جس میں ہر شریک کو فیصلہ سازی میں برابر کا حق حاصل ہوتا تھا۔

ان بیٹھکوں میں کاریز کے پچھلے انتظام سے متعلق منتظم سے سوالات پوچھے جاتے تھے اور مستقبل کے فیصلے متفقہ طور پر کیے جاتے تھے. اس انتظام کی بدولت کاریز پر کاشت کیے جانے فصلوں اور باغات کے حاصلات آس پاس کے کاریزات کے فصلات اور باغات کے حاصلات سے کئی گنا زیادہ ہوتی تھیں. آس پاس کے کاریزات کے شرکاء میں اکثر لڑائی جھگڑے چلتے رہتے تھے اور کاریز کے انتظام پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے کاریزات اکثر بند پڑے رہتے تھے جس سے حاصلات کم ہوتی تھیں.


کاریز کا یہ انتظام اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے برعکس پشتون قوم کتنے بہترین طریقے سے کارِ سرکار کو جمہوری طریقے سے چلاسکتے ہیں اور جب عوام فیصلہ سازی میں شریک ہو اور حکومتی نمائندے عوام کو جوابدہ ہو تو حکومتی نظام کتنا زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے.

جب حکمران بیرونی ہو یا جمہور کی رائے کے بغیر بزور طاقت اور غیر جمہوری طریقے سے حکمرانی کرتے ہیں تو حکمرانوں اور جمہور کے مابین آقا اور غلام کا رشتہ جنم لیتا ہے. اول الزکر، آخر الزکر کو جانوروں سے بھی کمتر سمجھتے ہیں اور ہر کام میں رعایا کی فلاح و بہبود کے بجائے مخصوص طبقے کی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں. نتیجتاً لوگوں کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی جاتی ہیں.

اس ضمن میں خان شہید اپنی سوانح عمری "زما ژوند او ژوندون" کے اول جلد کے صفحہ نمبر 76-177 پر لکھتے ہیں کہ جب "جرگے" پر مضمون لکنھے کے سلسلے میں، میں نے تحقیق اور مطالعہ شروع کیا تاکہ جرگے اور اس کی اہمیت و افادیت اچھی طرح سمجھے سکوں تو مجھ پر "پشتونوں کی جرگے" اور "انگریز سرکاری جرگے" کا فرق اور انگریز سرکار کے نظامِ حکومت کی نقصانات آشکار ہوئیں اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے وطن اور پشتون قوم کی تمام بدبختیوں اور مصائب کا سرچشمہ انگریز سرکار ہے. وطن اور قوم کی بدبختی روز بروز اس وقت تک بڑھتی رہے گی جب تک ان بیرونی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرکے یہاں کی عوام کی اپنی سرکار وجود میں نہیں آتی ہے. یہی تحقیق اور دیگر عوامل آنے والے وقت میں میرے قومی جدوجہد کا موجب بنے.

اس وقت چونکہ برٹش بلوچستان میں آزادی یا سیاسی و قومی حقوق کے حصول کے لئے کوئی سیاسی پارٹی وجود نہیں رکھتی تھی تو قوم کو غلامی جیسی لعنت سے نجات دلانے اور یہاں بسنے والے باشندوں کی منشاء سے وطن و ملت کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی حکومت کی قیام کے لئے خان شہید نے قومی جدوجہد کا آغاز اپنے گاؤں کے مسجد میں تقریر سے کیا. سرکار کے سرزنش کے باوجود اس سلسلے کو بڑھانے کے پاداش میں خان شہید دوسری مرتبہ 15 مئی 1930ء کو قید کردیے گئے. یاد رہے اس سے پہلے سال 1928ء کو افغان مترقی بادشاہ غازی امان اللہ خان کے خلاف انگریز استعمار کے ایماء پر برپا کیے گئے بغاوت کو کچلنے کے لئے جنگ میں شرکت سے روکنے کے سلسلے میں آپ کو 28 روز قید میں رکھا گیا. قید و بند کا بعد میں یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً آپ کی شہادت تک جاری رہا لیکن تقیسم ہند کے بعد اس میں مزید شدت آگئی۔

قیام پاکستان کے بعد بہت قلیل عرصہ خان شہید جیل سے باہر رہے اور سب سے لمبا عرصہ زندگی کے آخری چار سال آپ جیل سے باہر آزاد رہے. قیام پاکستان کے بعد آپ نے ورور پشتون، نیپ اور بعد میں پشتونخوا نیپ کے پلیٹ فارم سے ملک میں تاریخی پشتونوں علاقوں پر مشتمل متحدہ صوبہ "پشتونستان" کے قیام، ون یونٹ کا خاتمہ، ون مین ون ووٹ، مارشلاء کی مخالفت اور ملک میں جمہوری اقدار کی فروغ کیلئے جدوجہد کی. اس جدوجہد کی پاداش میں آپ نے ایوبی مارشلاء کا پورا دورانیہ جیل میں گزارا اور اس مارشلاء کے سب سے آخری رہا ہونے والے سیاسی قیدی تھے. 


ون یونٹ کے خاتمہ کے وقت اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے نیپ کے پشتون اور بلوچ رہنما جنوبی پشتونخوا کے علاقے بلوچستان اور اٹک اور میانوالی پنجاب میں شامل کرنے پر رضامند ہوئے اور خان شہید کا اصولی موقف اور احتجاج نظرانداز کردیا تو آپ نے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے نیپ علیحدگی اختیار کی اور "پشتونخوا نیپ" کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی بنائی.

نوزائدہ جمہوریت میں جب سیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش بڑھی اور خان شہید کو احساس ہوا کہ اس کشمکش سے غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں. کیونکہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے تو آپ نے جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ہزارہا خرابیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت حمایت کی۔


8 دسمبر 1973ء کے "روزنامہ مساوات" میں جوہر میر کی ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ یکم دسمبر کی شام صحافیوں کی خان شہید سے ملاقات ہوئی. خان شہید نے ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوریت کے تجربے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناکام بنا دینا چاہتے ہیں. ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کیا جائے. اس سے اگلے دن 2 دسمبر کو آپ کو شہید کردیا گیا.

کبھی کبھار کسی سیاستدان کو اپنے غیر معمولی فہم و فراست کے مطابق ناگزیر حالات میںایسے غیرمقبول فیصلے لینے پڑتے ہیں جس ایک طرف مخالفین کو اس پر کیچڑ اچھالنا کا موقع میسر آتا ہے تو دوسری طرف اس کے اپنے کا فہم فراست اس فیصلے کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے جو آنے والے وقتوں میں لوگ میں سمجھ پاتے ہیں. اگر آج اس وقت حالات اور اس کے بعد بننے والے سیاسی حالات کا مخلصانہ جائزہ لیا جائے تو یقیناً خان شہید کے اس غیر مقبول فیصلے کو درست مانا جائے گا.

خان شہید کے یہ خدشات اس وقت حقیقت ثابت ہوئے جب آپ کی کہی ہوئی بات آپ کے شہادت کے چار برس کے بعد 1977ء کو جنرل ضیاءالحق نے ملک میں جمہوری نظام کا تختہ الٹ کر مارشلاء لگا دیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی.

خان شہید کے شہادت کے سنتالیس برس بعد آج بھی ملک میں ایک مضبوط جمہوریت کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہوسکا لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ ملک کی وہ تمام بڑی سیاسی قوتیں جو کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں غیر جمہوری قوتوں کی دستِ راست رہیں، آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم پر یکجاء ہو کر جمہوریت کی بحالی و تحفظ کے لئے جدوجہد کررہی ہیں. سیاسی جماعتوں کا موجودہ جمہوری بیانیہ خان شہید کی جمہوری جدوجہد کی مرہون منت ہے اور آپ کی حقانیت اور راہ راست پر ہونے پر مہر ثبت کررہی ہے.