مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی پہلی بیوی نصرت شہباز شریف خاندان کی ان تین خواتین میں شامل ہیں جن کی سیاست اور سیاسی معاملات، بالخصوص شریف برادران کی سیاسی زندگی سے بظاہر کوئی دلچسپی ہے نہ کوئی لینا دینا، دیگر دو خواتین میں شریف برادران کی مرحومہ والدہ بیگم شمیم شریف اور نواز شریف کی چھوٹی بیٹی اسماء نواز شامل ہیں۔ اگرچہ وسیع تر”شریف فیملی” جو ماضی کے سات بھائیوں کے”اتفاق برادرز" پر مشتمل تھا، اس کی ننانوے فیصد خواتین خاندان کے زیادہ تر مردوں کی طرح مَکمل غیر سیاسی رہی ہیں اور بالعمُوم کبھی منظر عام پر نہیں آئیں تاہم اکتوبر 1999 میں شریف فیملی نے یہ روایت اس وقت توڑ دی جب وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت فیملی کے تمام مرد ارکان گرفتار کر لیے جانے پر بیگم کلثوم نواز کو مزاحمت اور احتجاج کے لئے میدان میں اُترنا پڑا اور انہیں عبوری عرصے کے لئے جتنا وقت بھی منظر عام پر رہنا پڑا، اقتدار پر قبضہ کرنے والی طاقتوں کو ناکوں چنے چبواتی رہیں۔ دلیر بیگم کلثوم نواز اتنی سخت جان ثابت ہوئیں کہ اپنی مختصر عرصے ہی کی مردانہ وار جدوجہد سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ شریف فیملی میں وہی سب سے بڑی”مرد" ہیں۔
لیکن اس عرصے میں بیگم نصرت شہباز وسیع تر”شریف فیملی" کی اکثر خواتین کی طرح بدستور پردے میں رہیں اگرچہ ان کے شوہر کو بھی اقتدار سے بے دخل کر کے اور گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر رکھا ہوا تھا۔ البتہ حمزہ شہباز کی والدہ اور شہباز شریف کی چچا زاد نصرت شہباز نے اپنے ایک بیان کے حوالے سے پہلی اور آخری دفعہ منظر عام پر آ کر فوجی حکومت، بالخصوص ایجنسیوں کی دوڑیں لگوا دیں۔
12 اکتوبر کی فوجی بغاوت میں منتخب وزیراعظم نواز شریف کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد 'طیارہ سازش کیس' میں سزا سنائی جا چکی تھی جس کے کچھ عرصہ بعد شریف خاندان اپنا بوریا بستر سمیٹ کے گھریلو ملازمین سمیت پاکستان چھوڑ کر سعودی عرب جا چکا تھا ماسوائے حمزہ شہباز کے، جنہیں پاکستان میں شریف فیملی کے کاروبار کی دیکھ بھال کے لئے خصوصی طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک عرصہ تک سیاسی محاذ پر 'شریفوں' کے حوالے سے مکمل سناٹا تھا۔ خاندان کا کوئی بھی فرد ان طے شدہ شرائط کے تحت سیاسی منظر پر نمودار نہیں ہوا تھا جو جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور سعودی شاہی خاندان کے مابین ہونے والے 'معاہدے' میں طے پائی تھیں کہ ایک صبح روزنامہ پاکستان لاہور میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے والے بیگم نصرت شہباز کے بیان نے ملک کے سیاسی منظر اور خفیہ ایجنسیوں سمیت حساس ادارے کی صفوں میں یوں ہلچل مچا دی جیسے ٹھہرے پانی میں پتھر پھینکنے سے پیدا ہوتی ہے۔
شریف خاندان کی مذکورہ 'رضاکارانہ' جلا وطنی کے بعد سے فیملی کے کسی بھی فرد کی یہ پہلی آواز تھی جو بیگم شہباز شریف کے بیان کی صورت میں گھمبیر سیاسی سناٹے میں گونجی۔ اس صبح کا پاکستان اخبار کیا مارکیٹ میں آیا، حساس ادارے اور اقتدار کے ایوانوں میں تھرتھلی مچ گئی، 'خفیہ' والوں کی دوڑیں لگ گئیں، حکومت اور طاقتور حلقے ہی نہیں، ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اور شریف خاندان کے افراد، حتیٰ کہ خود بیگم نصرت شہباز شریف حیرت زدہ تھیں کہ یہ سب کیا اور کیسے ہو گیا۔ ملک کے سیاسی، سماجی اور عوامی حلقے اس بیان پر اس لئے انگشت بدنداں تھے کہ جس طرح دسمبر 2000 کی ایک رات شریف فیملی مکمل خاموشی سے پاکستان سے سعودی عرب روانہ ہوئی تھی، اسی طرح کی مکمل خاموشی شریف خاندان کے لبوں پر اب تک طاری تھی۔ 'سزا یافتہ' سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جیل سے نکال کے جدہ روانہ کرنے کے لئے پاکستان کی فوجی حکومت اور سعودی شاہی خاندان کے مابین مبینہ ڈیل اس قدر رازداری کے ساتھ مکمل کی گئی تھی کہ پاکستان کے اس 'شاہی خاندان' کی سعودی شاہی خاندان کے خصوصی طیارے سے جدہ کے لئے اڑان بھرے جانے تک اس پورے معاملے کی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی گئی تھی۔
سعودی شاہی خاندان نے سابق لبنانی وزیر اعظم مرحوم رفیق الحریری کے بیٹے سعد حریری کو بیچ میں ڈالا تھا جو ایک سعودی شہزادے مقرن (جو اس وقت سعودی انٹیلی جنس چیف تھے) کے ہمراہ نہایت خفیہ طور پر پاکستانی حکام کے ساتھ معاملات طے کرتے رہے جب کہ شریف فیملی کی مجاز شخصیات یعنی شریف برادران کے والد میاں شریف مرحوم اور ان کے بیٹوں نوازشریف، شہباز شریف کے علاوہ اگر واحد شخص اس سے باخبر تھا تو وہ ملک کے چوٹی کے فوجداری وکیل اعجاز بٹالوی مرحوم تھے جنہوں نے شریف خاندان کے وکیل کے طور پر معاہدے کے کاغذات تیار کیے تھے اور پھر ان پر متعلقہ افراد کے دستخط حاصل کیے تھے۔ اسی طرح پنجاب کی اس سابق خاتون اول کا متذکرہ بیان اخبار کے ذریعے منظر عام پر آنے تک 'سرور پیلس' جدہ کے مکینوں میں سے کسی نے لب کُشائی کی تھی نہ شاہی محل سے باہر کسی کی کوئی نقل و حرکت اب تک منظر عام پر آئی تھی، لہٰذا شریف خاندان کی ایک ایسی خاتون رکن کی میڈیا تک رسائی پر پاکستان کے طاقتور سیاسی، سماجی و دیگر حلقے حیرت زدہ رہ گئے جو میڈیا کے ذریعے ماضی میں بھی کبھی منظر عام پر نہیں آئی تھی۔
ہوا یوں کہ 'جاتی امرا' والوں کی جلا وطنی کے دوران پاکستان میں بیگم نصرت شہباز کی ایک کزن کی والدہ وفات پا گئیں جو لاہور کے علاقے دھرم پورہ میں رہتی تھیں، جس پر نصرت شہباز تعزیت کے لئے خاموشی سے لاہور آ گئیں۔ نصرت کی کزن یعنی مرحومہ کی بیٹی محلے دار ہونے کی وجہ سے روزنامہ پاکستان کی خاتون رپورٹر پروین خان کی دوست تھیں جب کہ پروین خان لاہور کے سب سے پڑھے لکھے صحافی اعجاز رضوی کی شاگرد تھیں۔ اعجاز رضوی ہی کی رہنمائی کی وجہ سے پروین خان کو لاہور کی ایسی پہلی لیڈی رپورٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جس کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی تھی۔ یہ کتاب دھماکہ خیز سیاسی انکشافات پر مشتمل اس تفصیلی انٹرویو پر مبنی تھی جو پروین خان نے ممتاز خاتون صحافی نسیم زہرہ کے بھائی رضا کاظم کا کیا تھا۔ رضا کاظم 'اٹک سازش کیس' کے اہم کرداروں میں شامل تھے۔
پروین خان نے اپنی دوست اور بیگم شہباز شریف کی کزن کو اعتماد میں لے کر نصرت شہباز سے ملاقات کر لی اور اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر وہ نصرت شہباز کا 'سیاسی انٹرویو' کرنے میں کامیاب ہو گئی جو بظاہر گپ شپ کے انداز میں کیا گیا تھا۔ نصرت شہباز کا یہ انٹرویو اگلی صبح روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا تو جلا وطن شریف فیملی کے ایک فرد کی خفیہ پاکستان آمد کا بھانڈا پھوٹ گیا اور بیگم شہباز شریف کو گرفتاری سے بچنے کے لئے دھرم پورہ میں واقع اپنی کزن کے گھر سے پنجاب کے سابق ڈی جی پی آر (اور بعد میں شریف فیملی کے ترجمان) فرخ شاہ کے موہنی روڈ پر واقع گھر شفٹ ہونا پڑا۔ حساس اداروں نے روزنامہ پاکستان کے دفتر سے نصرت شہباز کے انٹرویو بارے تفتیش شروع کی تو ایڈیٹر انچیف جناب مجیب الرحمٰن شامی نے 'سورس' یعنی اپنی لیڈی رپورٹر کا تحفظ اور ستائش کرنے کی بجائے الٹا اسے ڈانٹا شروع کر دیا۔ خیر، 'خفیہ' والوں کی رپورٹ پر رات تک پولیس کی بھاری نفری موہنی روز پر فرخ شاہ کے گھر کا گھیراؤ کر چکی تھی۔ مگر فرخ شاہ نصرت شہباز شریف کو 'چور دروازے' سے نکال دینے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ فرخ شاہ کے گھر کے سامنے والے دروازے اور ایک عقبی دروازے کے علاوہ ایک تیسرا خفیہ دروازہ بھی تھا جو گھر کے پیچھے واقع ایک خفیہ گلی میں کھلتا تھا۔ مطلوب 'ملزمہ' اسی تیسرے خفیہ دروازے سے نکل کر کسی 'نامعلوم ٹھکانے' کے لئے روانہ ہو چکی تھیں۔