آصف زرداری خود پر بھاری ہیں یا بلاول بھٹو زرداری پر؟ یہ بحث ایک بار پھر اس وقت چھڑی ہے جب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تھری پی پی کا چیئرمین ابھی سیکھ رہا ہے، میں فور پی پی کا چیئرمین ہوں اس لیے بلاول بھٹو زرداری کو عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار بھی میرے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھا؛ 'بیشک بلاول اچھا بول لیتا ہے لیکن تجربہ تو تجربہ ہوتا ہے'۔
کیا آصف زرداری نے جان بوجھ کر اپنے انٹرویو میں یہ بات کی یا ان کی زبان پھسل گئی؟ کیا فور پی پی کے چیئرمین کا یہ انٹرویو تھری پی پی والے چیئرمین کو نیا بیانیہ دینے سے روکنے کیلئے تھا؟ یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔
آصف زرداری کے انٹرویو کے بعد دونوں باپ بیٹے میں اختلافات واضح طور پر سامنے آ گئے۔ انٹرویو کے بعد بلاول بھٹو زرداری دبئی روانہ ہوئے اور جانے سے پہلے انہوں نے سوشل میڈیا کے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پروفائل پکچر کو تبدیل کر کے اپنی والدہ کے ساتھ بنی ہوئی تصویر لگا دی۔ پروفائل پکچر کا تبدیل ہونا بتا رہا تھا کہ وہ کس کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کی روانگی کے بعد آصف زرداری بھی اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کے ہمراہ دبئی روانہ ہو گئے۔ پارٹی کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ شیڈول تھا، جس میں فیملی گیدرنگ ہونا تھی۔ دبئی پہنچنے کے بعد اختلافات کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے آصف زرداری نے اپنے بچوں اور بہن کے ساتھ تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ لوگوں کو پیغام جائے کہ جو کچھ میڈیا پر بتایا جا رہا ہے وہ غلط ہے اور ہم سب ایک ہیں۔
لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ آصف زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو زچ کیا۔ انہیں جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے دیر نہیں کی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ایک بار تو بلاول بھٹو زرداری کو کہنا پڑا کہ گھر کے معاملات اور پارٹی کے معاملات الگ الگ ہیں، لیکن زرداری صاحب نے کیونکہ پارٹی اور گھر کو ایک ہی کر دیا ہے اس لیے وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور بلاول کو ہمیشہ وضاحتیں دینا پڑتی ہیں۔
نگران حکومت کے قیام کے بعد بلاول بھٹو زرداری لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر شکوہ کرتے رہے۔ بھرے جلسوں میں الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے باوجود بھی آئندہ عام انتخابات میں وفاق میں حکومت بنانے کا دعویٰ کیا، لیکن زرداری صاحب نے الیکشن کمیشن پر اپنے اعتماد سے متعلق ایک بیان جاری کر کے بلاول بھٹو زرداری کے بیانیے کو ہوا میں اڑا دیا۔ اسی طرح سیاست سے پہلے معیشت بچانے کے آصف زرداری کے بیان کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو بدین کے دورے کے دوران یہ کہنا پڑا کہ صدر زرداری کے ساتھ گھر کے معاملات میں تو وہ پابند ہیں لیکن پارٹی کے معاملات پر وہ مرکزی مجلس عاملہ اور پارٹی کے کارکنوں کی رائے کے پابند ہیں۔
عام انتخابات کی مہم کے دوران انہوں نے عمر رسیدہ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کے بیانیے کو اختیار کیا، جو انہوں نے رواں سال اگست میں قومی اسمبلی کے آخری اجلاس کے دوران اختیار کیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر ن لیگ اور جے یو آئی ناراض تھے لیکن کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کے بیانیے کو کسی کے کہنے پر تو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن انٹرویو میں زرداری صاحب نے انہیں ان ٹرینڈ کہہ کر ان کی پوزیشن کو بہت کمزور کر دیا۔
بلاول بھٹو زرداری 19 سال کی عمر میں پارٹی چیئرمین بنے۔ یہ چیئرمین شپ انہیں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت کے تحت دی گئی۔ لیکن اس وقت عملی طور پر پارٹی کے معاملات کے کل مالک ان کے والد آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور تھیں۔
بظاہر تو یہ ایک ٹرائیکا تھی، لیکن ابتدائی دنوں میں اس ٹرائیکا میں بلاول بھٹو زرداری کا کردار نمائشی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کارکنوں میں اس بات کا احساس شدت پکڑتا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری عملی سیاست کب شروع کریں گے۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ انہیں مختلف اوقات میں دو بار لانچ کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں موہن جو دڑو کے مقام پر سندھ فیسٹیول کے ایونٹ پر خود کو ایک نئے انداز میں پیش کیا اور ملک کے کم عمر ترین اور کامیاب وزیر خارجہ بننے تک انہوں نے ہر محاذ پر خود کو منوایا۔ مریم نواز کی گرفتاری پر اشتعال میں آ کر اسمبلی کے فلور پر عمران خان اور اس کے سرپرستوں کو بے غیرت تک کہہ دیا۔ کراچی میں مریم نواز کی گرفتاری پر بھی ان کا ردعمل اسی طرح کا تھا۔ وہ مریم نواز کو گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان بھی لے آئے، جس میں تمام قبریں ان مقتولوں کی تھیں جن میں سے بی بی کے علاوہ باقی مقتولوں کے قاتل ضیاء الحق سے مریم نواز کے والد کا گہرا تعلق رہا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آمروں کو ہمیشہ ذلت ہی نصیب ہوئی۔
اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اس وقت بھی اپنے والد سے زیادہ پارٹی اور عوام میں پاپولر ہیں۔ اور یہی بات شاید بہت سوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔
بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری میں ایک بڑا فرق ہے۔ وہ آصف زردی کا بیٹا ضرور ہے، لیکن پیپلز پارٹی یا ملکی سیاست میں وہ بے نظیر بھٹو کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ مانا کہ آصف زرداری اور ان کے خاندان نے اقتدار کے 15 سالوں میں بے پناہ دولت حاصل کی ہے لیکن سیاسی دولت کا وارث اب بھی بلاول بھٹو زرداری ہے۔ اور اسی کی وجہ سے باقیوں کا دبدبہ باقی ہے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد تنظیمی طور پر پیپلز پارٹی کا جو حال ہوا تھا اسے بلاول بھٹو زرداری نے ہی سنبھالا دیا۔ ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر عمران دور حکومت میں بلاول بھٹو نے جو کردار ادا کیا وہ خود اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ادا نہیں کر سکا۔ اس لیے یہ تو ماننا پڑے گا کہ بلاول بھٹو زرداری نے خود کو اہل ثابت کیا، بلکہ وزیر خارجہ کے طور پر اس نے پاکستان کو ایک نئے چہرے کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ تمام صلاحیتیں ہونے کے باوجود بھی اگر اس کا اپنا باپ اسے نا تجربہ کار کہے تو یہ بہت ہی بڑی زیادتی ہے۔ صرف اپنے بیٹے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک پارٹی چیئرمین کے ساتھ بھی۔
بی بی کی شہادت کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کا جتنا بھی بیڑا غرق ہوا، اس میں بلاول بھٹو زرداری کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ن لیگ کے ساتھ زرداری صاحب کا جمہوریت کیلئے جو رومانس تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں شریفوں نے جیالوں کو دیوار سے لگا دیا۔ پارٹی میں کوئی ان کی بات نہیں سنتا تھا۔ بہت سارے لوگ پارٹی ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے پنجاب کے جیالوں کی کوئی اونرشپ ہی نہ لی۔ جمہوریت کو بچاتے بچاتے زرداری صاحب نے پنجاب میں پارٹی ہی فارغ کروا دی۔
اسی طرح اب جب بلاول بھٹو زرداری بابوں کو گھر بیٹھنے کی اپیل کر رہا ہے تو یہ نئی بات نہیں، اس نے کھل کر قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں نواز شریف اور اپنے والد کو کہا تھا کہ اپنی سیاست کے نتائج کا اتنا بوجھ اپنی اولادوں پر نہ ڈالیں کہ وہ اٹھا نہ سکیں۔ اور اب جب اس نے سارے بابوں کیلئے یہ بات کی ہے تو زرداری صاحب کو یہ بات بری لگی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جس عمر میں ابھی ہیں ان کے پاس اپنی والدہ اور نانا کی سیاسی وراثت اور ان کے تجربات ہیں۔ یہی پیپلزپارٹی کے لوگ تھے جب بلاول بھٹو زرداری کو کوئی بچہ یا سیاست میں نووارد کہتا تو اسے جواب یہ دیا جاتا تھا کہ آپ مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھائیں گے؟ لیکن اب سارے مصلحت کے باعث خاموش ہیں، اس وقت جب آصف زرداری نے بلاول پر ٹرینڈ نہ ہونے کا ٹھپہ لگا دیا ہے۔
پاکستان کے سیاسی حالات کتنے بدل چکے ہیں، اس کا اندازہ زرداری صاحب کو ضرور ہو گا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں نوحہ گری یا سینہ کوبی سے نہیں جیت سکتی۔ کیونکہ میتیں کندھے پر اٹھا کر انتخابی مہم چلانے کا دور ختم ہو گیا۔ پاکستان کی 64 فیصد یوتھ وہ ہے جس نے بھٹو صاحب کو دیکھا ہے اور نہ بی بی کو۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں ساڑھے 7 کروڑ لوگ موبائل فون پر انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ وہ نوکیا کے 3310 والے ماڈل سے واقف نہیں۔ بٹن والے موبائل والی نسل نئی ٹیکنالوجی کو سمجھ ہی نہیں پا رہی۔ نئی نسل روایتی میڈیا پر چلنے والے پروگراموں کو دیکھنے کیلئے مجبور نہیں ہے۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا ہے۔ نیا شعور اور نیا کلچر ہے۔ علم پر اجارہ داری کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ ہر پانچواں شہری اپنے خیالات ریکارڈ کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کا تصور تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ ترقی کا روایتی تصور تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک سے زیادہ اثاثے رکھنے والی کمپنیاں نوجوان ہی چلاتے ہیں اور یہ کمپنیاں دنیا پر راج کر رہی ہیں۔
کرپٹ اشرافیہ پیدا کر کے عام آدمی کی دولت چند سو من پسندوں میں منتقل کر دینا آسان ہے لیکن ترقی کے نئے تصور دے کر عام آدمی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا مشکل کام ہے۔ لیکن اگر نیت ہو تو یہ بھی مشکل نہیں۔
زرداری صاحب شاید سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہی پیپلز پارٹی کے مالک ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر وہ مالک ہوتے تو پیپلز پارٹی کے رہنما چند سال قبل دبئی جا کر انہیں دست بستہ درخواست نہ کرتے کہ آپ پارٹی کے رہبر بن جائیں۔ آج بھی سندھ میں تمام الیکٹ ایبلز پارٹی میں شامل کر کے خود کو سکیور سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب میں ایسے الیکٹ ایبلز کی تلاش اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی میں وہ کشش نہیں رہی جو عام ووٹر کو اپنی طرف کھینچے۔
اس وقت جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کے پاس الیکشن میں بیچنے کیلئے کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر بلاول بھٹو الیکشن کیلئے کھلا میدان، ن لیگ پر تنقید اور بابوں کو گھر بھیجنے کا بیانیہ بیچ رہے تھے اس سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ مروج اقتداری سیاست کے بیانیے کے بجائے نیا بیانیہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی اسے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ملکی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے تحت سیاسی پارٹی کی نظریاتی بلی چڑھا دینا عارضی فائدہ تو ضرور دے سکتی ہے لیکن اس کے کبھی بھی دور رس نتائج نہیں مل سکتے۔ اس لیے زرداری صاحب کو اپنے بیٹے کو نہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو عزت دینی چاہئیے۔ وہ پارٹی چیئرمین کو نا تجربہ کار کہہ کر دوسروں کو موقع دے رہے ہیں کہ اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔
آصف زرداری کو اگر بیٹے کے طور پر بلاول بھٹو زرداری کو سمجھانا ہی تھا تو وہ ٹی وی سکرین کا انتخاب کرنے کے بجائے گھر کے ڈرائنگ روم کا انتخاب کرتے تو گھر کی بات گھر میں ہی رہتی، بیٹے کی عزت بچی رہتی اور باپ کو اپنے بچوں کے ساتھ تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر نہ ڈالنی پڑتی۔ بیٹے پر بھاری ہونے کے بعد وہ خود پر بھی بھاری ہو گئے ہیں۔