یہودیوں کی احسان فراموشی، مسلم حکمرانوں کی چشم پوشی اور حماس کی حماقت

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں جنگوں کی وجہ اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے۔ مملکت اسرائیل مغربی اقوام کا چھوڑا ہوا سُؤر ہے جو دوسروں کے کھیتوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ جنگ و خوں ریزی کا دوسرا نام صیہونی ریاست ہے۔ صیہونی ریاست فتنوں کا منبع ہے۔

یہودیوں کی احسان فراموشی، مسلم حکمرانوں کی چشم پوشی اور حماس کی حماقت

مظلوم فلسطینی عوام یہودی و صیہونی بھیڑیوں اور مسلم ممالک کی غداری و چشم پوشی کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس جنونیت و بربریت کے ہولناک مناظر نے دو حقیقتوں کو مزید آشکار کر دیا ہے؛

1۔ دنیا کی سب سے زیادہ احسان فراموش و محسن کش قوم یہودی و صیہونی قوم ہے۔

2۔ مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کا غداری و بزدلی میں کوئی ثانی نہیں ہے۔

تاریخ کو کھنگال کر اگر مسلمانوں اور یہودی قوم کے تعلقات کا تجزیہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ مسلم ریاستوں کے یہودیوں پر اس قدر احسانات ہیں کہ اس قوم کو تو مسلمانوں کے سامنے آنکھ اٹھاتے ہوئے بھی شرم کرنی چاہئیے تھی۔ یورپ میں عیسائی قومیں جب یہودیوں پر ہر قسم کا ظلم روا رکھتی تھیں تو یہ جان بچانے کے لیے اسلامی ریاستوں کا رخ کرتے تھے۔ سپین میں مسلمانوں کے 800 سالہ دور حکومت میں کبھی یہودیوں پر ظلم و ستم نہ کیا گیا۔ اس دور میں یہودی قوم نے علم و تجارت اور تہذیب و تمدن کے میدانوں میں بہت ترقی کی۔ دوسری طرف عیسائی ممالک میں یہ حالات تھے کہ طاعون وغیرہ کے پھوٹنے کی وجہ بھی یہودیوں کو قرار دے کر انہیں زندہ جلا دیا جاتا تھا، جس طرح چودھویں صدی کے وسط میں طاعون (جس کو بلیک ڈیتھ کہا جاتا تھا) کے پھوٹنے پر کیا گیا۔

عیسائی سلطنتوں میں یہودیوں پر جو ظلم ڈھائے گئے، انہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عیسائی جنگجو جب صلیبی مہمات پر روانہ ہوتے تھے تو وہ یہودیوں کو قربانی و صدقے کے طور پر تہہ تیغ کر کے مسلمانوں کے خلاف میدان میں اترتے تھے۔ یہودیوں کو باعث نحوست سمجھا جاتا تھا۔ ان کے گھروں کو آگ لگانا، قتل عام کرنا عین ثواب سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں اگر اسلامی ریاستیں یہودیوں کو اپنی ریاستوں میں امن و عافیت نہ دیتیں تو شاید یہودی قوم اب تک ناپید ہو چکی ہوتی۔ اس عظیم احسان و حسن سلوک کا بدلہ اس محسن کش قوم نے معصوم فلسطینیوں کے قتل عام اور دیگر اسلامی ممالک میں ریشہ دانیوں، سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کی صورت میں دیا۔ یہودی و صیہونی حکمرانوں نے عیسائی حکومتوں کے مظالم کا بدلہ مسلمانوں سے لیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جس قوم نے یہودی نسل کی بقا میں کلیدی کردار ادا کیا، اسی کو خاک و خون میں غرق کر دیا۔ بد ترین احسان فراموشی و محسن کشی یہودی حکمرانوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔

عیسائی اور یہودی قوم کے درمیان صدیوں پر محیط عداوت و دشمنی کے باوجود آج یہ دونوں قومیں مشترکہ مفادات کے لیے متحد ہیں۔ دوسری طرف امت اسلامیہ میں دور دور تک ایسا مضبوط اتحاد نظر نہیں آتا۔ سوائے زبانی جمع خرچ کے حقیقی اتحاد کہیں نہیں ہے۔ اگر دو دشمن اسلامی ممالک باہمی بات چیت پر راضی ہو جاتے ہیں تو انہیں ساتھ بٹھانے والا کوئی برادر ملک نہیں ہوتا بلکہ یہ نیک کام بھی چین کے حصے میں آتا ہے۔ ماضی میں یورپین ممالک آپس میں شدید دشمنی رکھتے تھے، جس کے باعث ہولناک جنگوں و خون ریزی میں کروڑ ہا کروڑ لوگ مارے گئے۔ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے جب ان یورپین ممالک نے متحد ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے اتحاد کے پیچھے کوئی اسلامی ملک نہیں تھا بلکہ یہ خود تھے۔ مسلم ملکوں کے درمیان نا اتفاقی نے یہ جغرافیہ بدل دیا لیکن انہوں نے اپنا راستہ نہ بدلا۔ انہیں اپنے اقتدار، تسلط، خزانے اور محلات عزیز ہیں۔ ان کی ہمدردیاں دکھاوا ہیں۔ ان کے اعلانات و وعدے لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں۔ او آئی سی کے اجلاس ایک جھوٹی تسلی جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔

روس و یوکرائن کی جنگ میں یورپین ممالک نے روس پر ضربیں لگانے کے لیے اقتصادی ہتھیار استعمال کیا اور اب تو یوکرائن کی فوجی امداد بھی جاری ہے۔ عرب ممالک جو دولتوں و قدرتی وسائل کے پہاڑوں پر براجمان ہیں، ان میں یہ حوصلہ نہ ہوا کہ یہ ایک دن کے لیے ہی امریکہ و برطانیہ کو مالی نقصان پہنچا سکیں۔ جب روس اور یوکرائن کی لڑائی شروع ہوئی تو یوکرائنی عورتوں، بچوں اور معمر افراد کا پولینڈ وغیرہ کی طرف انخلا ممکن بنایا۔ سینکڑوں پاکستانی طالب علموں کی یوکرائن سے بحفاظت واپسی اردگرد ممالک کے بارڈر کھلے ہونے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ کافر ملکوں نے مل کر پاکستانی طلبہ کو تو بچا لیا تھا لیکن 50 کے لگ بھگ اسلامی ممالک ہزاروں فلسطینی بچوں کو اسرائیل کی بربریت سے نہ بچا سکے۔

اگر مصر کے رفع بارڈر کے ذریعے فلسطینی عورتوں اور بچوں کا انخلا ہی ممکن بنایا جاتا تو یہ عرب حکمرانوں کی طرف سے فلسطینوں کے لیے بہت بڑی مدد ہوتی۔ آج اگر رفع بارڈر انتہائی محدود پیمانے پر کھلا ہے تو اس کا مقصد غیر ملکیوں کا انخلا ہے۔ کچھ سال پہلے جب شام کو تخت و تاراج کیا جا رہا تھا تو شامی باشندے موت سے بچنے کے لیے کسی امیر ترین اسلامی ملک کا رخ نہیں کر رہے تھے بلکہ ہزاروں کلومیٹر کی صعوبتیں برداشت کر کے یورپ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ وسیع مالیاتی، اقتصادی و سیاسی اثر و رسوخ کے حامل عرب حکمران فلسطینی عورتوں اور بچوں کے بحفاظت انخلا کے راستے ہی نکال لیتے۔ ٹی وی سکرینوں پر فلسطینی بچوں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ کر اور ہسپتالوں کی تباہی کے مناظر دیکھ کر کافر ملکوں کے کافر لوگوں کے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں لیکن عرب حکمرانوں کے چہروں کی رونقیں بدستور شاداب ہیں۔ یہ غدار و بزدل ہیں۔ اسرائیلی بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ ان عرب ممالک کے بادشاہوں کے ہاتھ بھی فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو چاہتے تو عورتوں اور بچوں کا انخلا ممکن بنا سکتے تھے۔

اس المیے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ جنگ لڑنا بروقت و پیش بین حکمت عملی و بیدار مغزی اور ہوش کا کھیل ہوتا ہے۔ حکمت و بصیرت سے خالی جوش جب ہوش سے ٹکراتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ حماس نے ہوش کے بجائے نرے جوش سے کام لیا۔ اس ناقص و بے عقلی پر مینی منصوبہ بندی نے ان کے ہم وطنوں کو تہہ و بالا کر دیا۔ اس جنگ کے ختم ہونے پر اسرائیلیوں کے جتنے ٹینک و دیگر ہتھیار تباہ ہوں گے، اسرائیل اس سے بڑھ کر جدید و مہنگے ہتھیار آسانی سے حاصل کر لے گا۔ دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کے جو مکانات اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ کیے ہیں ان کی تعمیر نو کے لیے حماس کے لیڈران کیا اقدامات کریں گے؟ حماس کے پاس وہ کون سا پروگرام ہے جس کے تحت تباہ حال فلسطینیوں کی زندگیوں کو ازسر نو مرتب کیا جا سکے؟

اس کے علاوہ جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو خاص طور پر فلسطینی عورتوں اور معصوم بچوں کو اسرائیل کے شدید ردعمل سے بچانے کے لیے کیا حکمت عملی تیار کی تھی؟ کیا حماس نے حملہ کرنے سے پہلے مضبوط اسلامی ممالک کو اپنا حلیف و اتحادی بنایا تھا؟ کیا کسی ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایسا ملک لڑائی کے دوران کھل کر حماس و عوام کی فوجی و معاشی مدد کرتا؟

لڑائی شروع کرنے سے پہلے کیا حماس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی جنگی صلاحیتوں اور ہتھیاروں کا موازنہ اپنی تیاری کے ساتھ کیا تھا؟

یہودی و عیسائی قومیں بیدار مغز ہیں، یہ لوگ جوش میں بھی ہوش کا دامن نہیں چھوڑتے۔ اے حماس کے مجاہدو! ان قوموں کے ساتھ جنگ و جدل کرنا تھا تو اپنی تیاری تو پوری رکھتے۔ 5 ہزار معصوم فلسطینی بچوں کے جنازے اٹھانے کے بعد اس بہادری کا فلسطین کو کیا فائدہ ہوا؟

اپنے سے کئی گنا مضبوط دشمن سے لڑنے کے لیے اتحاد و بلاک بنانے پڑتے ہیں، معاشی و علاقائی اثر و رسوخ قائم کرنا پڑتا ہے۔ آج کی جنگیں دو ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ بلاکس کے درمیان لڑی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ مغربی بلاک کی معاشی، فوجی، سیاسی و اخلاقی مدد قدم بہ قدم شامل ہے۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں جنگوں کی وجہ اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے۔ مملکت اسرائیل مغربی اقوام کا چھوڑا ہوا سُؤر ہے جو دوسروں کے کھیتوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ جنگ و خوں ریزی کا دوسرا نام صیہونی ریاست ہے۔ صیہونی ریاست فتنوں کا منبع ہے۔ حماس کا جرم یہ ہے کہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ دشمن ریاست فلسطین کو تہس نہس کرنے پر تلا بیٹھا ہے، اس پر ایک ایسا حملہ کر دیا جو جنگی حکمت و دانائی سے عاری تھا۔ آج حال یہ ہے کہ فلسطین کے عوام مزید بھکاری بن گئے ہیں۔ آج فلسطینی صاف پانی، خوراک، پٹرول اور دوائیوں کے حصول کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کی اجازت کے محتاج ہیں۔ رفع بارڈر سے کتنے امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے، اس کا فیصلہ بھی اسرائیلی حکومت کر رہی ہے۔ حماس کی حماقت نے فلسطینیوں سے بچی کھچی، آدھی ادھوری آزادی اور خودمختاری بھی چھین لی ہے۔