کیا 'دو ریاستی حل' اسرائیل فلسطین تنازعہ ختم کر سکتا ہے؟

بھلا ظلم پر مبنی ایسی کسی بھی تقسیم کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جس میں فلسطینیوں کو ان کی زیر ملکیت سرزمینوں سے نکال باہر کرنا اور ان پر ناجائز قبضے کو مستقل بنیادوں پر تسلیم کر لینا شامل ہو؟ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس حل کے لیے راگ الاپنا ان کی امریکہ کے لیے چاکری اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کو ظاہر کرتا ہے۔

کیا 'دو ریاستی حل' اسرائیل فلسطین تنازعہ ختم کر سکتا ہے؟

آج کل پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب اسرائیل و فلسطین کے حوالے سے ' دو ریاستی حل' کی بھرپور وکالت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سپہ سالار جنرل حافظ عاصم منیر صاحب بھی اپنے امریکہ کے دورے پر نیو یارک میں فلسطین کی مبارک سرزمین پر دو ریاستی حل کو اس کا پائیدار حل قرار دیتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے وزیر اعظم صاحب کی بات ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے اسرائیل کو امریکہ کی ناجائز اولاد قرار دینے اور اسے تسلیم نہ کرنے کے سیاسی مؤقف سے ہٹ کر کوئی اور سیاسی مؤقف اختیار کرنا کوئی کفر کی بات نہیں، بلکہ محض ایک سیاسی رائے میں اختلاف ہے۔ کاکڑ صاحب شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ اسلام کی سرزمینوں سے متعلق اسلام کا بھی ایک حکم ہے جو یہ ہے کہ جب کفار مسلمانوں کی سرزمین پر چڑھ دوڑیں تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان سے لڑیں اور انہیں اپنی سرزمین سے باہر دھکیلیں۔ اور باقی مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے ساتھ مل کر اس سرزمین پر سودے بازی کرتے پھریں جبکہ اس سرزمین کے باسی خود شکست تسلیم کرنے سے انکاری ہوں اور اپنی مزاحمت بدستور جاری رکھے ہوئے ہوں۔ ایسا کرنا یقیناً ان مسلمانوں کے ساتھ کھلی غداری ہے۔

جہاں تک اس سلسلے میں دو ریاستی حل کی حیثیت کا تعلق ہے جسے ہمارے سپہ سالار بھی ایک پائیدار حل قرار دیتے ہیں تو یہ جاننا چاہئیے کہ نہ تو یہ ایک اسلامی حل ہے، نہ یہ حل کسی درست سیاسی فہم پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ حل مسلمانوں کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا بلکہ اصلاً یہ حل کفار کی جانب سے صیہونیوں کو اس سرزمین میں بسانے کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ برطانیہ نے آغاز میں یورپ کی یہودی برادری کے ساتھ گفت و شنید کر کے ان کے حق میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر (national home) قائم کر کے دے گا۔ یہ بیلفور حکم نامہ (Balfour Declaration) تھا۔

خلافت کے انہدام اور فلسطین پر قبضہ کر لینے کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر اپنا مینڈیٹ قائم کیا اور یہودی برادی کے ساتھ اپنے کیے گئے اس وعدے کو پورا کرنا شروع کیا۔ برطانیہ کا خیال تھا کہ جب وہ اس علاقے سے نکلے گا تو پیچھے اپنا سیکولر ریاستی ڈھانچہ چھوڑ کر جائے گا جس میں مسلمان اور یہودی مل کر اپنی ایک مخلوط سیکولر حکومت قائم کرلیں گے۔ لیکن جلد ہی مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین جھڑپوں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ باہر سےآ کر بسنے والے یہودیوں کی تعداد میں اضافے نے مقامی فلسطینیوں کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیا جن میں سے زراعت اور بے روزگاری کے مسائل سب سے اہم تھے۔ حالات کو اپنے قابو میں رکھنے اور مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برطانیہ نے وقتاً فوقتاً اپنی جانب سے پالیسیاں جاری کیں جن میں یہ اعادہ کیا گیا کہ بیرون ملک سے آ کر بسنے والے نئے یہودیوں کی تعداد میں کمی لائی جائے گی، لیکن حقیقت میں سلسلہ اس کے برعکس جاری رہا۔

سب سے پہلے مئی 1921 کے ہنگاموں کے نتیجے میں اس وقت کی برطانوی کالونیوں کے سٹیٹ سیکرٹری ونسٹن چرچل کی جانب سے جون 1922 میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا جسے 'فلسطین میں برطانوی پالیسی' بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگست 1929 کے ہنگاموں کے نتیجہ میں پہلے شوا کمیشن (Shaw Commission) تشکیل دیا گیا، پھر ہوپ سمپسن انکوائری (Hope Simpson Enquiry) کمیشن اور پھر انہی کمیشنز کی رپورٹس کی بنیاد پر اکتوبر 1930 میں پاس فیلڈ وائٹ پیپر (Passfield Whitepaper) جاری کیا گیا جس میں ایک بار پھر نئے یہودیوں کی آمد میں کمی لانے کا اعادہ کیا گیا۔ یہودی برادری نے 1922 کے پالیسی پیپر کی طرح اس پالیسی پیپر کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور قانونی اور غیر قانونی طور پر نئے یہودیوں کی آمد کے سلسلے کو بدستور جاری رکھا۔

1930 کی دہائی میں یورپ میں یہودی مخالف رجہانات پیدا ہونے کے بعد پولینڈ اور مشرقی یورپ میں یہودیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے نتیجے میں یورپ چھوڑ کر فلسطین آ کر آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ باہر سے آ کر بسنے والے یہودیوں کی تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں فلسطین کے مسلمانوں کو درپیش مسائل میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا، یہاں تک کہ فلسطین کے مسلمانوں کو اپریل 1936 میں عام ہڑتال کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ ہڑتال چھ ماہ تک مسلسل جاری رہی اور پھر تین سالہ خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی جو اگست 1939 تک جاری رہی۔ اس دوران برطانیہ نے نومبر 1936 میں پہلے کی طرح ایک اور کمیشن تشکیل دیا جسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ یہودی مسلم جھڑپوں کی وجوہات پر غور کر کے کوئی مستقل حل تجویز کرے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ دو ریاستی حل کی تجویز جس نے دی وہ یہی کمیشن تھا جسے برطانیہ کے لارڈ پیل کے نام پر پیل کمیشن (Peel Commission) کہا گیا۔

اس کمیشن نے جولائی 1937 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ لیگ آف نیشنز کی جانب سے منظور شدہ مینڈیٹ اب مزید کارآمد نہیں رہا اور فلسطین کی تقسیم اب ناگزیر ہے۔ اس نے ایک نقشہ تجویز کیا جس میں فلسطین کی سرزمین کا شمال مغربی علاقہ یہودیوں کے لیے مختص کیا اور باقی کا تمام علاقہ مسلمانوں کے لیے رکھا جبکہ القدس (یروشلم ) کا علاقہ برطانوی مینڈیٹ میں برقرار رکھا۔

فلسطین کے مسلمانوں نے اس کمیشن کی رپورٹ کی بھرپور مخالفت کی اوراپنی سرزمین پر کسی بھی صیہونی ریاست کے قیام کو مکمل طور پر رد کیا۔ لیکن برطانیہ نے دو ریاستی تقسیم کی اس تجویز کا مزید تفصیل سے جائزہ لینے کے لیے فروری 1938 میں ووڈہیڈ کمیشن (Woodhead Commission) کے نام سے ایک ٹیکنیکل کمیشن تشکیل دیا، جسے پارٹیشن کمیشن (Partition Commission) بھی کہا گیا تا کہ نا صرف مجوزہ ریاستوں کی سرحدوں کا تعین کیا جا سکے بلکہ اس منصوبے کے اقتصادی پہلوؤں پر بھی غور کیا جا سکے۔ اس کمیشن نے نومبر 1938 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں تین مختلف نقشے پیش کیے گئے۔ دو ریاستی تقسیم پر مبنی ان تمام نقشوں میں بھی القدس (یروشلم ) کے علاقے کو برطانوی مینڈیٹ میں برقرار رکھا گیا کیونکہ یہ وہ علاقہ تھا جس کو اگر کسی ایک فریق کو دے دیا جاتا تو دوسرا فریق اسے کبھی بھی قبول نہ کرتا اور ایسی کسی قسم کی تجویز پہلی فرصت میں ہی کارآمد نہ ہوتی۔ لیکن برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ طویل المدتی بنیادوں پر اسے فلسطین میں اپنی براہ راست موجودگی کو برقرار رکھنا پڑے۔

یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ کالونیل ازم سے نیو کالونیل ازم (neo-colonialism) کی جانب بڑھ رہا تھا۔ پوری دنیا میں اس وقت برطانوی پالیسی یہی تھی کہ وہ اپنی تمام کالونیوں میں اپنا قائم کردہ سیکولر ریاستی ڈھانچہ چھوڑ کر چلا جائے اور پھر اپنی تربیت یافتہ بیوروکریسی اور اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے ان علاقوں کو اپنے مفادات کے مطابق چلاتا رہے۔ لہٰذا برطانیہ نے ان کمیشنز کے پیش کردہ دو ریاستی حل میں درپیش عملی نوعیت کی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی مشکلات کی بنا پر اس حل کو غیر موزوں قرار دیا۔

برطانیہ نے مئی 1939 میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں یہ اعلان کیا کہ وہ دس سال کے عرصے کے اندر اندر فلسطین سے نکل جائے گا اور اس دوران ایک ایسا ڈھانچہ قائم کر کے جائے گا جس کے مطابق فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ ریاست قائم ہو سکے گی جس میں دونوں فریق مل کر ایک حکومت قائم کریں گے اور یوں اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں گے۔ اس وائٹ پیپر میں یہ بھی کہا گیا کہ باہر سے آ کر بسنے والے یہودیوں کی ایک خاص تعداد پوری ہونے پر مزید یہودیوں کو اس صورت میں آنے دیا جائے گا اگر فلسطین کی عرب اکثریت اس کی اجازت دے گی۔ پھر اس میں یہودیوں پر فلسطین میں ایک مخصوص فیصد سے زائد زمین خریدنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ اس سب کے ذریعے برطانیہ فلسطین کے عربوں سمیت ہمسایہ عرب ممالک میں بھی اپنا ایک اچھا سیاسی تصور چھوڑ کر جانا چاہتا تھا تا کہ عرب ممالک کے حکمران برطانوی کیمپ میں ہی رہیں اور اسے چھوڑ کر سوویت یا امریکی کیمپ میں نہ چلے جائیں اور ان کے عوام برطانیہ کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں اور یوں اس خطے سے چلے جانے کے بعد بھی برطانیہ اس خطے سے جڑے اپنے مفادات بدستور حاصل کرتا رہے۔

لیکن صیہونی برادری کو 1939 کا یہ وائٹ پیپر ایک آنکھ نہ بھایا۔ ڈیوڈ بن گریون (Davin Ben-Gurion) جو اس وقت فلسطین کی یہودی برادری کی قیادت کر رہا تھا، اس نے برطانیہ کے ساتھ ہونے والی اس وائٹ پیپر سے متعلقہ گفت و شنید میں برطانیہ کے فیصلے کو بھانپتے ہوئے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے برطانیہ کے بجائے امریکہ کا رخ کرنے جا رہا ہے۔ ان مقاصد میں یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانے پر آمد کے ساتھ ساتھ وہاں پر ایک صیہونی ریاست کا قیام بھی تھا۔ امریکہ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہا تھا اور اس کے لیے برطانیہ کے پہلے سے قائم شدہ اثر و رسوخ کو کمزور کرنا ضروری تھا۔ امریکہ نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے صیہونی مؤقف کی بھرپور تائید کی اور یوں مشرق وسطیٰ میں بالعموم اور فلسطینی سرزمین پر بالخصوص امریکی اثر و رسوخ کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے برطانوی مؤقف کے برخلاف یہودیوں کے لیے الگ ریاست کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالوا کر 1947 میں دو ریاستی حل پر مبنی نقشہ جاری کروایا۔ یہی وہ نقشہ تھا جس کی شہہ پر 15 مئی 1948 میں برطانوی انخلا کے ساتھ ہی صیہونیوں نے اپنی ریاست کا اعلان کیا اور فلسطینیوں کو ناصرف ان تمام زمینوں سے باہر دھکیل دیا جنہیں اقوام متحدہ کے نقشے پر 'یہودیوں کی ریاست' (Jewish State) کے طور پر دکھایا گیا تھا، بلکہ اس کے علاوہ بھی مزید علاقوں سے فلسطینیوں کو نکال کر ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

آج مسلمانوں کے حکمرانوں کی جانب سے جس ' دو ریاستی حل' کے حق میں بات کی جاتی ہے، اس سے مراد یہودی وجود کے لیے وہ علاقہ تسلیم کر لینا ہے جو 1948 سے لے کر 1967 تک اس کے زیر تسلط تھا۔ یعنی یہ اس سے بھی زائد علاقہ ہے جس کا نقشہ اقوام متحدہ نے 1947 کے تقسیم کے منصوبے (UN Partition Plan) میں جاری کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ ناصرف اقوام متحدہ کے اس باطل تقسیم کے منصوبے کا اقرار ہے جس میں فلسطین کی سرزمین کا ایک بڑا علاقہ یہودیوں کے لیے مختص کر دیا گیا تھا حالانکہ یہودیوں کی تعداد عربوں سے کہیں کم تھی، بلکہ یہودی وجود کے اس 1948 میں کیے گئے قبضے کا بھی اقرار ہے جو اس نے ناصرف اقوام متحدہ کے جاری شدہ منصوبے کے مطابق کیا بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر مزید علاقے پر بھی کیا اور عربوں کے لیے رہی سہی زمین کو بھی دو حصوں (یعنی مغربی کنارہ اور غزہ) میں ایسے تقسیم کیا کہ ان کے درمیان کوئی زمینی رابطہ برقرار نہ رہ پائے اور ان کے درمیان بھی یہودی وجود ہی حائل ہو۔

بھلا ظلم پر مبنی ایسی کسی بھی تقسیم کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جس میں فلسطینیوں کو ان کی زیر ملکیت سرزمینوں سے نکال باہر کرنا اور ان پر ناجائز قبضے کو مستقل بنیادوں پر تسلیم کر لینا شامل ہو؟ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس حل کے لیے راگ الاپنا ان کی امریکہ کے لیے چاکری اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو آغاز سے ہی اس دو ریاستی حل کا اصل سرغنہ ہے اور مسلم ریاستوں کی جانب سے ناجائز صیہونی ریاست کو منوا کر اس مسئلہ کو دبا دینا چاہتا ہے۔ جبکہ اس مسٔلہ کا اصل حل فلسطین میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے جس میں یہودیوں کو ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت تو حاصل ہو سکتی ہے لیکن حکمرانوں کی نہیں۔ یہی وہ صورت حال ہے جو کم و بیش تیرہ سو سال تک رہی جب یہ علاقہ اسلامی ریاست خلافت کا حصہ تھا اور اس میں مسلمان، یہودی اور عیسائی امن کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں اسلام تلے اپنے وہ تمام حقوق حاصل تھے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن و سنت میں اہل کتاب کے لیے مقرر کیے ہیں۔