چند لوگوں کا خیال یہ ہے، خصوصاً وہ جو حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں اسلام کا نظام خلافت قائم ہوتا ہے تو پوری دنیا پاکستان پر دھاوا بول دے گی اور یوں پاکستان میں نظام خلافت کے قیام سے ایک اور جنگِ عظیم چھِڑ جائے گی۔ اس تصور کے پسِ منظر میں بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر، جس کی سربراہی امریکہ کرتا ہے، اپنے خلاف کوئی آواز بھی اٹھائے جانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اس نئی صدی کے آغاز سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے عراق کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ امریکہ نے ایران، شمالی کوریا اور یہاں تک کہ روس کے خلاف یوکرائن کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے سخت ترین پابندیاں لگائیں۔ حالانکہ یہ وہ ریاستیں ہیں جو کہ نظریاتی طور پر موجودہ ورلڈ آرڈر کو چیلنج نہیں کر رہیں، بلکہ وہ عالمی سیاست کے میدان میں اپنے حجم کے مطابق کسی حد تک ایک قابل احترام مقام رکھنا چاہتی ہیں لیکن پھر بھی امریکہ کو یہ بات پسند نہیں، وہ بس اپنا تسلط چاہتا ہے اور اسی لئے وہ کسی اور کو اس رستے پر چلنے کی اجازت نہیں دیتا جس سے وہ بالآخر اپنا ہدف حاصل کر سکیں۔
لہٰذا ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی شدت اور سختی کے ساتھ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا اپنا ردِعمل ظاہر کرے گی جب ریاستِ خلافت کا اعلان ہوگا جو کہ موجودہ ورلڈ آرڈر کو نہ صرف ایک بارُعب اور باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے چیلنج کرے گی بلکہ خلافت موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو تبدیل کر کے اس کی جگہ ایک نیا ورلڈ آرڈر قائم کرے گی جو کہ اسلام کا ورلڈ آرڈر ہو گا۔
اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا ریاستِ خلافت کے قیام کی بھرپور مخالفت کریں گے، کیونکہ 1924 میں خلافت کے انہدام سے لے کر انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ خلافت کبھی بھی واپس نہ آ سکے۔ وہ ہر سطح پر یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسلم دنیا میں خلافت کی بحالی کا کام کرنے کے لئے سیاست کے میدان میں کسی کو بھی کوئی موقع نہ مل پائے۔ لیکن مسلمانوں کی گردنوں پر سوار بدترین جابرانہ حکومتیں مسلط کرنے کے باوجود بھی خلافت کے قیام کی پُکار نہ صرف مسلم دنیا کے ہر کونے میں مضبوطی سے اپنے قدم جمانے کے قابل ہو چکی ہے بلکہ اب یہ پوری اُمت کا مطالبہ بھی بن چکی ہے۔ لہٰذا ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ خلافت کی پُکار کو دبانے، ختم کرنے اور اسے مٹا دینے کے لئے ہر طرح کا نسخہ آزما لینے کے باوجود بھی، استعمار اور ان کی کٹھ پُتلی حکومتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہیں اور یہ اس لئے کہ یہ پُکار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی طرف پُکار ہے اور اللہ سبحانہ وت عالیٰ نے اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ خلافت دوبارہ عین نبوت کے نقشِ قدم پر ضرور قائم ہو گی۔
اس کے علاوہ ہم پچھلی دو دہائیوں میں یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کے مسلمانوں پر عالمی جنگ برپا کئے رکھی۔ ہم اسے عالمی جنگ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لئے کہ ایک طرف تو اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ نیٹو تھا اورمسلمانوں کے کٹھ پُتلی حکمرانوں کی فوج اور انٹیلی جنس پر مبنی معاونت شامل تھی جبکہ دوسری طرف افغانستان کے نہتے مسلمان تھے۔ افغانستان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان ہلکے معمولی ہتھیاروں سے لیس مسلمانوں نے پوری دنیا کے لئے یہ ناممکن بنا دیا کہ وہ ان پر غلبہ پاسکیں بلکہ آخر میں وہ بُری طرح شکست کھانے کے بعدذلیل و رُسوا ہو کر افغانستان سے نکلے۔ یہی ایک مثال ہی اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہے کہ خلافت کے قیام کے بعد ، اگر پوری دنیا مل کر بھی اس کے خلاف عالمی جنگ چھیڑدے وہ اسے شکست دینے کے قابل ہونا تو دَرکنار، وہ پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت کے خلاف مقابلہ کرنے کی ہمت بھی نہ کر پائیں گے۔
خلافت کے قیام کے بعد کفار ہرگز ریاستِ خلافت کے خلاف عالمی جنگ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں گے۔ فروری 2012 میں امریکہ کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے ویسٹ پوائنٹ کیڈٹس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی غیر دانشمندانہ بات ہوگی کہ وہ کبھی دوبارہ عراق یا افغانستان جیسی ایک اور جنگ میں سر کھپائے، اور یہ کہ اس انداز میں دوبارہ حکومت تبدیل کر دینے کے امکانات بہت کم ہیں۔ رابرٹ گیٹس نے کہا: "میری رائے میں، مستقبل میں آئندہ اگرکوئی سیکرٹری دفاع ،صدر کو دوبارہ ایک بڑی امریکی بَرّی فوج کوایشیا یامشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھیجنے کا کہتا ہے تو اس سیکرٹری دفاع کو 'اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے' جیسا کہ جنرل میک آرتھر نے بھی کہا تھا“۔
“In my opinion, any future defense secretary who advises the president to again send a big American land army into Asia or into the Middle East or Africa should ‘have his head examined,’ as General MacArthur so delicately put it.” (Robert Gates)
رابرٹ گیٹس نے فوجی کیڈٹس کے اجلاس کے دوران یہ کہا تھا۔لہٰذا درج بالا بیان کی روشنی میں اگر امریکہ اپنی فوج کو کسی قلیل سے گروہ سے جنگ کرنے کے لئے بھی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھجوانے پر راضی نہیں ہے تو پھر آخر کیسے امریکہ اور باقی تمام دنیا پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت پر حملہ کرنے کی جرأت بھی کر سکیں گے؟ جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس پہلے سے دنیا کی چھٹے نمبر پر بڑی فوج موجود ہے جو کہ ثابت شدہ نیوکلئیر صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی صورت میں مؤثر ہتھیاروں سے لیس ہے۔ یادرہے کہ اس زبردست فوجی طاقت کے علاوہ ریاستِ خلافت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں رضاکار مجاہدین بھی موجود ہوں گے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ ، روس کے ساتھ یوکرائن میں براہِ راست نہیں اُلجھ رہا بلکہ وہ روس کے خلاف پراکسی وار لڑرہاہے۔اگرچہ روس اس مقام پر نہیں ہے کہ عالمی تجارت میں مداخلت کرسکے، لیکن پھر بھی سپلائی چین اس بُری طرح متأثر ہو رہی ہیں کہ تیل اور دیگرضروریاتِ زندگی کی قیمتیں انتہائی حد تک بڑھنے کی وجہ سے یورپ کے لوگوں نے یوکرائن میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا شروع کردیاہے۔ روس سے موازنہ کریں تو پاکستان خلیج فارس کے متصل واقع ہے اور مغرب سے مشرق کےاطراف تجارتی جہاز بحیرۂ عرب میں عین پاکستان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کسی قیمت پر پوری عالمی تجارت کو نقصان پہنچانے کا اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
لیکن بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود، پھربھی اگرمغرب پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ہمت کربھی لے تو وہ ہرگز ایسا کرنے کے قابل نہ ہوسکے گا۔ افغانستان پر ہونے والے حملہ کو یادکریں تو امریکہ کبھی بھی ہمسایہ ممالک، جیسے پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان پر حملہ نہ کرسکتا تھا۔ چونکہ افغانستان کے پاس سٹریٹجک اور جدید ہتھیار موجود نہ تھے اس لئے امریکہ نے آسانی سے اپنی فوج افغانستان میں منتقل کردی اور آس پاس کے ہمسائیوں سے بغیر کسی دِقّت وخطرہ کے سپلائی روٹ قائم کرلئے۔ لیکن پاکستان کے معاملہ میں ، امریکہ کو وہی سہولت دوبارہ فراہم نہ ہوسکےگی جیسی افغانستان پر حملہ کے وقت میسرتھی۔اور اگر امریکہ خطہ میں کسی ہمسایہ ملک کی حمایت لے بھی لے تو پاکستان اپنے جدید نیوکلئیر ہتھیاروں کی وجہ سے کسی بھی امریکی جارحیت کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ پس جس طرح آج امریکہ روس کے نیوکلئیرہتھیاروں کے خوف سے یوکرائن کے تنازعہ میں براہِ راست کُود پڑنے سے ہچکچارہا ہے بالکل اسی طرح امریکہ ، نیوکلئیرہتھیاروں سے لیس پاکستان میں قائم خلافت پرحملہ کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی جرأت نہ کر سکے گا۔
آج پاکستان کی قیادت ، ایک شکست خوردہ قیادت ہے جو ہرحالت میں امریکہ اور اس کے عالمی آرڈر کی چاپلوسی اورغُلامی کرنا چاہتی ہے۔ یہی رویہ امریکہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹے نمبر پر بڑی اور نویں نمبر پر مضبوط ترین فوج موجود ہونےکے باوجود پاکستان پر حکم چلائے اور جب ضرورت سمجھے تو اس پر حملہ آوربھی ہوجائے کیونکہ اسے یہ یقین ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے کبھی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ امریکہ صرف اُسی ملک پر حملہ کرتا ہے جہاں اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ملک عالمی نظام کا غلام ہے اور ایک آسان شکار ہے۔ اور جہاں کہیں امریکہ کو یہ یقین ہو کہ مخالف ملک جوابی کاروائی کے ساتھ اقدامی حملہ بھی کرسکتا ہے تو امریکہ ایسے ملک پر حملہ کرنے کے بارے میں کبھی جرات بھی نہیں کرسکتا۔
یادرہے کہ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین نے کونسا نظام نافذ کردیا تھا۔اُس وقت امریکہ اور روس (USSR) میں شدید مخالفت آرائی جاری تھی اور یہ امریکہ کے مفاد کے لئے شدید نقصان دہ تھا کہ وہ ایک اور کمیونسٹ ملک کے قیام کو قبول کرلے۔ لیکن آخر ایسی کیا بات تھی کہ امریکہ ، چین پر حملہ کرنے کی ہمت بھی نہ کرسکا حالانکہ چین اپنے ملک کے داخلی معاملات ، اندرونی پھُوٹ اور بیرونی قبضوں کی وجہ سے خاصا کمزور تھا ؟ یہ اس لئے کہ امریکہ کو یہ معلوم تھا کہ چین کے پاس اب ایک ایسی قیادت ہے جوایک خاص نظریہ رکھتی ہے اور وہ نظریہ چین کی ریاست کو امریکی جارحیت کا بھرپُور جواب دینے کے قابل بنادے گا۔ اسی طرح اگر پاکستان خلافت کو قائم کرلیتا ہے جو کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ریاست ہو گی توامریکہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی ہرگز ہمت نہ کرسکے گا۔
لہٰذا یہ محض ایک خام خیالی ہے کہ اگر خلافت کادوبارہ قیام پاکستان سے ہوتا ہے تو پوری دنیا ہم پر حملہ آور ہوجائے گی اور ایک عالمی جنگ چھڑجائے گی۔ کفار ہمارے دلوں میں خوف کا بیج بونا چاہتے ہیں تاکہ ہم پاکستان میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے جدوجہد نہ کریں ، اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقوں میں بھی امریکی اجارہ داری یونہی جاری وساری رہے۔ عراق وافغانستان میں ناکام مہم جوئیوں کے بعدیہ قطعی ممکن نہیں کہ امریکہ کبھی ایک نیوکلئیرہتھیاروں سے مسلح ملک یعنی پاکستان پر حملہ کے بارے میں سوچ بھی سکے گا۔ لہٰذا ہمیں ہرحالت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کر دینا چاہیئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمۡۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖؕوَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴾
"اگراللہ تمہاری مدد کرے گا توکوئی تم پرغالب نہ ہوگا اور اگر وہ(اللہ) تم کوچھوڑدے گا توپھرکون ہے کہ اس کے بعد تمہاری مدد کرے۔ اور مسلمانوں کو اللہ پرہی بھروسہ کرنا چاہئے“ (آل عمران؛ 3:160)