پاکستان کی حکومت اسلامی نہیں، ایسے ہی نظام کے خلاف ہم نے افغانستان میں جنگ لڑی، ترجمان افغان طالبان

پاکستان کی حکومت اسلامی نہیں، ایسے ہی نظام کے خلاف ہم نے افغانستان میں جنگ لڑی، ترجمان افغان طالبان
افغان طالبان اور امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اسلامی نہیں، ایسے ہی نظام کے خلاف ہم نے افغانستان میں جنگ لڑی۔

تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستانی نظام اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستانی حکومت کے لیے مذہب کی کوئی اہمیت ہے۔ ​جیسا نظام پاکستان میں ہے، ایسے ہی نظام کے خلاف ہم نے افغانستان میں جنگ لڑی ہے۔

https://twitter.com/HashimWahdatyar/status/1469378045165420553?s=20

دوسری جانب افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے کابل میں برسر اقتدار اسلامی امارات افغانستان کی ”شاخ“ ہونے کے دعو ے کو مسترد کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود پاکستان کے شمالی علاقوں میں دورے کے دوران گولی مار دی گئی تھی، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم کو امارات اسلامیہ افغانستان کی حمایت حاصل ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں انھیں یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹی ٹی پی امارت اسلامیہ افغانستان کا ہی ایک حصہ ہیں۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں نور ولی محسود کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کا امارات اسلامیہ افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ بطور تنظیم امارات اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اور ہمارے مقاصد بھی یکساں نہیں ہیں۔

ایک ماہ قبل طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دونوں فریقوں کی خواہش پر پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ عامر خان متقی کے بیان کے کم و بیش ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ افغان طالبان نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے. افغان طالبان کی مدد سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا ٹی ٹی پی کی جانب سے اس جنگ بندی کی مزید توسیع سے انکار کردیا گیا ہے، حکومت اس فیصلے کی پاسداری میں ناکام ہے جو انہوں نے اس مستقبل کیا تھا ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں 6 نکات پر مبنی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئی ای اے کی سرپرستی میں حکومت سے معاہدے تک پہنچ گئے ہیں۔

معاہدے کے مطابق دونوں فریقین نے بطور ثالث افغانستان کے کردار کو قبول کیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ثالث کے زیر سرپرستی دونوں فریقین پانچ اراکین پر مشتمل کمیٹیاں بنائیں گے جو آئندہ کے اقدامات اور مطالبات پر تبادلہ خیال کریں گے. انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین نے یکم نومبر سے 30 نومبر تک ایک ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھااور فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومت 102 قید مجاہدین کو رہا کرکے ٹی ٹی پی کے حوالے کرے گی جس کے بعد آئی ای اےاور دونوں فریقین نے یکم نومبر 2021 کو جنگ بندی کے حوالے سے مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔

بیان کے مطابق حکومت نہ صرف دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے فیصلے کے نفاذ میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس کے برعکس سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، سوات، باجوڑ ،صوابی اور شمالی وزیرستان میں کارروائی کرتے ہوئے کئی جنگجوﺅں کو ہلاک کیا اور متعدد کو حراست میں لیا۔ ٹی ٹی پی کا کہنا تھا کہ ان حالات کے پیش نظر ممکن ہے کہ جنگ بندی مزید جاری نہ رکھی جائے اگر ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت پاکستان کے امن کے معاہدے اور کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔