بحریہ ٹاؤن کراچی میں املاک بک کروانے والے افراد کی بڑی تعداد نے طارق روڈ پر کمپنی کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور انصاف اور اپنی محنت سے کمائی گئی رقم کے حقیقی استعمال کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کا انعقاد جماعت اسلامی نے کیا تھا جس نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں 9 فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی موجود تھے جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کے خلاف نعرے لگائے۔ انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکام سے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں جس میں متوسط طبقے اور بالائی متوسط طبقے کی بھاری سرمایہ کاری شامل ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کے دعوے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے نعرے سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کبھی ایک لفظ بھی بحریہ ٹاؤن کی بدعنوانیوں اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف نہیں کہا۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ ایک منظم دھوکا دہی ہے جس میں الاٹیز کو ان کی املاک کی ملکیت نہیں دی گئی جبکہ جن سے ری فنڈ کا وعدہ کیا گیا انہیں بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔ جن افراد کو ان کے پلاٹس کی مکمل ادائیگی کرنے کے بعد ملکیت ملنے والی تھی ان سے 30 فیصد اضافی رقم جمع کروانے کا کہا گیا جو کہ اصل معاہدے کے خلاف ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک کمپنی ریاست کے اندر ریاست کی طرح کام کر رہی ہے اور کسی میں جرات نہیں کہ اس سے سوال کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام کو ریاست کے تیزی سے ختم ہوتے کردار کے حوالے سے تشویش ہے ایک ایسے وقت میں کہ جب ان کے پاس اپنی شکایات لے کر جانے کی کوئی جگہ نہیں اور کوئی بھی اپنے مضبوط تعلقات کی بنیاد پر آسانی سے شہریوں کا پیسہ چرانے کے لیے اسمارٹ اسکیم بنا سکتا ہے۔ لوگوں کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا، ہمارا احتجاج بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کیے گئے استحصال کے خلاف ہے لیکن ساتھ ہی ہم اس ساری صورتحال کے دوران غائب رہنے پر حکومت پاکستان اور حکومت سندھ کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے موجود ہیں کہ ملک ریاض سے ہزاروں افراد کا مسئلہ حل کرنے کا کہا جائے ورنہ اگلے مرحلے میں ہم حکام پر کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے اور اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو 9 فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔